سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(225) لاعلمی میں نجس کپڑوں میں عمرہ ادا کرنا

  • 19874
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 924

سوال

(225) لاعلمی میں نجس کپڑوں میں عمرہ ادا کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے عمرہ کیا، فراغت کے بعد مجھے علم ہوا کہ احرام کے کپڑے نجاست آلود تھے، میرے لیے اب کیا حکم ہے، قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اگر کسی انسان نے عمرہ کیا اور طواف وسعی کر لینے کے بعد اسے پتہ چلا کہ احرام کی چادروں کو نجاست لگی ہوئی تھی تو اس کا عمرہ مکمل ہے۔ کیونکہ ایسی حالت میں عمرہ ہوا جبکہ اسے نجاست کا علم نہ تھا یا اسے معلوم تھا مگر وہ اسے دھونا بھول گیا، ان دونوں صورتوں میں اس کا عمرہ صحیح ہے، دوبارہ عمرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِيْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا١ۚ ﴾ [1]

’’اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول ہو جائے یا ہم کسی خطاء کے مرتکب ہوں تو اس پر ہمارا مؤاخذہ نہ فرما۔‘‘

 رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی اور آپ جوتوں سمیت نماز پڑھ لیتے تھے، اس دن آپ نے دوران نماز اپنے جوتوں کو اتار دیا، آپ کو دیکھ کر آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے جوتوں کو اتار دیا، نماز کے مکمل کرنے کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا تھا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے دیکھا کہ آپ نے جوتے اتار دیے ہیں تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار دیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس تو جبرئیل علیہ السلام آئے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ آپ کے جوتوں کو نجاست لگی ہوئی ہے۔‘‘ [2]

 اس موقع پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نماز کا حصہ نجاست آلود جوتوں میں ادا کیا۔ لیکن آپ نے اس ادا شدہ نماز کا اعادہ نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص بھول جائے یا لا علمی کی وجہ سے ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح ہے، اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، اس طرح اگر نادانستہ یا لا علمی کی وجہ سے نجاست آلود احرام میں عمرہ کر لیا تو علم ہونے کے بعد اسے دوبارہ عمرہ کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا عمرہ صحیح ہے۔


[1] ۲/البقرة: ۲۸۶

[2]  ابو داود، الصلوٰة: ۶۵۰۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:211

محدث فتویٰ

تبصرے