سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(223) خیراتی ہسپتال میں زکوٰۃ استعمال کرنا

  • 19872
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 833

سوال

(223) خیراتی ہسپتال میں زکوٰۃ استعمال کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک خیراتی ہسپتال جہاں علاج معالجہ مفت ہوتا ہو کیا ایسے ہسپتال کے لیے مال زکوٰۃ سے آپریشن کے آلات یا دیگر سامان خریدا جا سکتا ہے، قرآن و حدیث کی اس سلسلہ میں کیا ہدایات ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فریضہ ہے جس کے مصارف خود اللہ تعالیٰ نے ہی بیان فرمائے ہیں اور وہ یہ ہیں:

1)  فقیر: اس سے مراد ایسا مسلمان ہے جس کے پاس اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہو۔

2) مساکین: جس کے پاس کچھ مال تو موجود ہو لیکن اس کی ضروریات کے لیے ناکافی ہو۔

3) عاملین زکوٰۃ: وہ افراد جو زکوٰۃ جمع کرنے پر تعینات ہیں اور اس کا حساب و کتاب رکھتے ہیں۔

4)  تالیف قلب: کسی غیر مسلم کی دلجوئی کرنا جس کے اسلام لانے کا قوی امکان ہو۔

5) گردن آزاد کرنا: کسی غلام کو آزادی دلانے میں مالی مدد کرنا یا مسلمان قیدی کو کفار سے رہائی دلانا۔

6)  قرض دار: ایسا مقروض جس نے اپنی ضروریات کے لیے قرض لیا لیکن تنگ دستی کی وجہ سے ادائیگی پر قادر نہیں رہا۔

 7)  فی سبیل اللہ: اللہ کے راستے میں خرچ کرنا جس سے مقصود اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا ہو۔

8) ابن السبیل: مسافرانسان کو دورانِ سفر ضروریات پورا کرنے کے لیے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔

 قرآن کریم کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ صرف انہی مصارف پر خرچ کی جا سکتی ہے جیسا کہ آغاز میں کلمہاِنَّمَاسے معلوم ہوتا ہے۔ ان مصارف میں مریض شخص شامل نہیں ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر مریض کو بھی زکوٰۃ کا مستحق خیال کیا جاتا ہے پھر اس بنا پر ہسپتالوں کو زکوٰۃ دی جاتی ہے، جب کہ مرض کی بناء پر زکوٰۃ کا کوئی استحقاق نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا مریض جو صاحب استطاعت ہو اس پر زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ حدیث میں ہے: ’’زکوٰۃ میں مالدار آدمی کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی کسی طاقتور، کمائی کی صلاحیت رکھنے والے کے لیے استعمال کرنا جائز ہے۔‘‘ [1]

 ان خیراتی ہسپتالوں میں مال زکوٰۃ کو غریب لوگوں کے علاج تک محدود نہیں رکھا جاتا بلکہ وہ لوگ بھی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو صاحب حیثیت یا با اثر ہوتے ہیں، چونکہ ادویات امیر و غریب کے امتیاز کے بغیر ہر مریض کو دی جاتی ہیں لہٰذا ایسے ہسپتالوں کو زکوٰۃ دینا صحیح نہیں ہے اسی طرح درج ذیل مدات میں مال کی زکوٰۃ استعمال کرنا بھی محل نظر ہے۔

 1) ہسپتالوں کے لیے جگہ خریدنا اور عمارت تعمیر کرنا۔ 2) ادویات خریدنا اور علاج کے لیے آلات فراہم کرنا۔

 3) ٹیسٹ لیبارٹری کا اہتمام کرنا۔ 4)مریضوں کو لانے اور گھر پہنچانے کے لیے ایمبولینس لینا۔

 5) بے سہارا اور لا وارث لوگوں کے لیے کفن و دفن کا اہتمام کرنا۔

 بہرحال زکوٰۃ کا اولین مستحق فقیر یا مسکین شخص ہے، ایسے خیراتی ہسپتال جو صرف فقراء کے علاج کے لیے مخصوص ہوں اور یا مال زکوٰۃ سے صرف غرباء کا علاج کیا جاتا ہو، ایسے ہسپتالوں کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے بشرطیکہ صرف ادویات وغیرہ خریدی جائیں لیکن جہاں امراء ترجیحی طور پر فائدہ اٹھاتے ہوں وہاں زکوٰۃ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)


[1] ابوداود، الزکوٰة: ۱۳۱۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:208

محدث فتویٰ

تبصرے