سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(222) زرعی پیداوار کی زکوٰۃ

  • 19871
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 6464

سوال

(222) زرعی پیداوار کی زکوٰۃ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ملک میں بہت سی زرعی پیداوار ہوتی ہیں، مثلاً گندم، کپاس، گنا اور پھل وغیرہ بھی زمین کی پیداوار ہیں، قرآن کریم نے زرعی پیداوار سے اﷲ تعالی کا حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اس سلسلہ میں کیا فیصلہ ہے، کتنی پیداوار پر کتنا حق، کس پیداوار سے ادا کرنا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کتاب وسنت میں دو قسم کی زکوٰۃ کا ذکر ہوا ہے، ایک تجارتی زکوٰۃ اور دوسری زرعی زکوٰۃ، اگرچہ کچھ معاصرین نے صنعتی زکوٰۃ کو الگ قسم قرار دیا ہے تاہم یہ تجارت ہی کا ایک شعبہ ہے، اس سلسلہ میں قرآن کریم کی درج ذیل آیات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں:

1)  ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ١۪ ﴾[1]

’’اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہے اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین میں سے نکالا ہے، اس میں سے اچھی چیزیں اس اﷲ کی راہ میں خرچ کرو۔ ‘‘

 اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ جیسے اموال صنعت وتجارت میں زکوٰۃ فرض ہے ویسے ہی زمین کی پیداوار میں بھی فرض ہے۔

2) ﴿وَ هُوَ الَّذِيْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّ غَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ١ۖ ﴾ [2]

’’وہی تو ہے جس نے چھتوں اور بغیر چھتوں کے باغات پیدا کیے نیز کھیتیاں اور کھجوریں پیدا کیں، جن سے کئی طرح کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں اور اس نے زیتون اور انار پیدا کیے جن کے ذائقے ملتے جلتے بھی ہیں اور مختلف بھی، جب یہ درخت پھل لائیں تو ان سے خود بھی کھاؤ اور فصل اٹھاتے وقت ان میں اﷲ کا حق بھی ادا کرو۔‘‘

1) زرعی زکوٰۃ کے لیے پیداوار کا پانچ وسق یا اس سے زیادہ ہونا شرط ہے، ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے گویا زرعی پیداوار کا نصاب ۳۰۰ صاع ہے، جدید اعشاری نظام کے مطابق ایک صاع ۲ کلو اور ۱۰۰ گرام کا ہوتا ہے، اس حساب سے پانچ وسق میں چھ صدتین کلو گرام وزن بنتا ہے، اس سے کم مقدار پر زکوٰۃ دینا ضروری نہیں کیونکہ اس سے کم پیداوار تو کاشتکار یا زمیندار کے گھر کا سالانہ خرچ تصور کیا جائے گا، جب کہ تجارتی زکوٰۃ کے لیے سرمایہ کا پانچ اوقیہ چاندی کے برابر ہونا ضروری ہے یہ چاندی ساڑھے باون تولے ہوتی ہے، اس سے کم مالیت میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’پانچ وسق کھجور سے کم مقدار میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘ [3]

2) زرعی زکوٰۃ میں پیداوار پر سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بلکہ جب بھی فصل کاٹی جائے یا پھل توڑا جائے تو اسی وقت زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے جیسا کہ درج بالا آیت میں ہے لیکن تجارتی زکوٰۃ کے لیے سرمایہ پر سال گزرنا ضروری ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مال میں بھی اس وقت تک کوئی زکوٰۃ نہیں جب تک اس پر ایک سال نہ گزر جائے۔ [4]

 یہ امر انتہائی عدل پر مبنی ہے اگر اس کا وجوب ہر ماہ ہر ہفتہ میں ہوتا تو اس سے اغنیاء کو نقصان ہوتا اور اگر زکوٰۃ کا وجوب زندگی میں ایک مرتبہ ہوتا تو اس سے مساکین خسارے میں رہتے، اس بنا پر اﷲ تعالیٰ نے کھیتوں اور پھلوں کے صحیح طور پر پختہ ہونے پر اور تجارتی اموال میں سال گزرنے پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔

3) شرح زکوٰۃ میں بھی فرق ہے کیونکہ اگر کھیتیاں اورباغات قدرتی چشمہ یا بارش کے پانی سے سیراب ہوں تو اس میں عشر یعنی دسواں حصہ اور اگر انہیں مصنوعی طریقوں سے سیراب کیا جائے تو اس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ زکوٰۃ دینا ہو گی، جب کہ تجارتی اموال میں چالیسواں حصہ یعنی اڑھائی فیصد زکوٰۃ دی جاتی ہے جیسا کہ احادیث میں اس کی وضاحت ہے، چنانچہ زرعی زکوٰۃ کی شرح صحیح بخاری حدیث نمبر ۱۴۸۳ اور تجارتی زکوٰۃ کی شرح صحیح بخاری، حدیث نمبر ۱۴۴۷ میں بیان ہوئی ہے۔ تجارتی زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے بشرطیکہ وہ نصاب تک پہنچ جائے۔ اس سلسلہ میں کچھ اجناس کو خاص کرنا درست نہیں کیونکہ قرآن وحدیث میں زکوٰۃ کو خاص اجناس تک محدود رکھنے کے متعلق کوئی صحیح اور صریح دلیل موجود نہیں ہے بلکہ درج ذیل دلائل کے عموم کا تقاضا ہے کہ ہر قسم کی زمینی پیداوار سے زکوٰۃ دی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ١۪ ﴾[5]

’’اس چیز میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہے۔‘‘

1) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ١ۖ﴾[6]’’کھیتی کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو۔‘‘

2) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’وہ زمین جسے آسمانی پانی یا قدرتی چشمے سیراب کریں، اس کی پیداوار میں دسواں حصہ اور جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔ [7]

 ان آیات واحادیث میں کسی خاص جنس کا ذکر نہیں ہے بلکہ زمین کی ہر پیداوار پر زکوٰۃ دینے کی صراحت ہے بشرطیکہ وہ مقدار نصاب تک پہنچ جائے، البتہ کچھ اہل علم نے زرعی زکوٰۃ کو خاص اجناس تک محدود کیا ہے مثلاً گندم، جو، منقیٰ اور کھجور وغیرہ سے زکوٰۃ لی جائے اور کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ ہر اس جنس سے زکوٰۃ لی جائے جو بطور غذا استعمال ہوتی ہے اور اس کا ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہو، ان کے نزدیک پھلوں اور ترکاریوں میں زرعی زکوٰۃ نہیں، اسی طرح گنے کی فصل میں بھی زرعی زکوٰۃ کے بجائے تجارتی زکوٰۃ لینے کے قائل ہیں بشرطیکہ اس کی مجموعی قیمت نصاب کو پہنچ جائے، ان کے دلائل اور ان پر ہمارا تبصرہ حسب ذیل ہے:

٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا، جب انہیں یمن میں لوگوں کو دین سکھانے کے لیے روانہ کیا، آپ نے فرمایا: ’’جو، گندم، منقیٰ اور کھجور۔ ان چار اجناس کے علاوہ کسی دوسری جنس سے زکوٰۃ وصول نہ کرنا۔‘‘ [8]

 سنن ابن ماجہ میں پانچ اصناف کا ذکر ہے، مذکورہ چار کے علاوہ اس میں مکئی کا بھی ذکر ہے یعنی ان پانچ اصناف سے زکوٰۃ لی جائے۔ [9] لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں محمد بن عبداﷲ خزرجی راوی ضعیف ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت کی ہے۔[10]

اس لیے چار اجناس سے ہی زرعی زکوٰۃ وصول کی جائے۔ چونکہ مسلمان کا مال حرام ہے۔ اس لیے صرف اتنا ہی لیا جا سکتا ہے جتنے مال کے متعلق قطعی دلیل موجود ہو اور دلیل کی رو سے صرف چار چیزوں سے زکوٰۃ لینا ثابت ہے لہٰذا انہی چار پر اکتفا کیا جائے۔

 اس دلیل کے متعلق ہماری گزارش یہ ہے کہ اگرچہ امام حاکم نے اس روایت کی سند کو صحیح کہا ہے اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کی موافقت کی ہے، علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [11]

 لیکن حقیقت کے اعتبار سے یہ روایت قابل حجت نہیں ہے کیونکہ اس میں ابو حذیفہ راوی صدوق سئی الحفظ ہے، سفیان ثوری جیسے مدلس راوی نے اس روایت کو عَنْ سے بیان کیا ہے اور طلحہ بن یحییٰ راوی بھی مختلف فیہ ہے، ان تمام راویوں کے متعلق جرح کتبِ جرح وتعدیل میں دیکھی جا سکتی ہے۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کچھ شواہد پیش کیے ہیں لیکن وہ بھی مرسل اور ضعیف ہیں۔ اس لیے یہ روایت اس پایہ کی نہیں کہ اس سے قرآنی عموم کو خاص کیا جائے۔ اس لیے ہر زمینی پیداوار سے زکوٰۃ دی جائے، سورۃ الانعام کی آیت کے سیاق کو دیکھا جائے تو اس میں مختلف باغات بالخصوص کھجوروں اور اناروں کا ذکر ہے پھر تمام زرعی اجناس کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

﴿كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ١ۖ﴾[12]

’’جب یہ درخت پھل لائیں تو ان سے خود بھی کھاؤ اور فصل اٹھاتے وقت ان میں سے اﷲ کا حق بھی ادا کرو۔‘‘

 رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گندم، جو، منقیٰ اور کھجور سے زکوٰۃ لی جاتی تھی مگر ہمارے ہاں ان کے علاوہ اور بہت سی اجناس بکثرت پیدا ہوتی ہیں جیسے چاول، جوار، باجرہ، مکئی، جو اور چنے وغیرہ۔ لہٰذا ان سب اجناس پر زکوٰۃ فرض ہو گی، ان کے علاوہ اخروٹ، بادام، خوبانی، مونگ پھلی اور کشمش بھی بکثرت دستیاب ہیں، یہ سب چیزیں جب حد نصاب کو پہنچ جائیں تو ان سے بھی زرعی زکوٰۃ ادا کی جائے۔ سبزیوں اور ترکاریوں کے متعلق بھی روایات بیان کی جاتی ہیں۔ ان میں زرعی زکوٰۃ نہیں ہے مثلاً

٭ حضرت عطاء بن سائب فرماتے ہیں کہ عبداﷲ بن مغیرہ نے حضرت موسیٰ بن طلحہ کی زمین میں سے سبزیوں کی زکوٰۃ لینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا کہ تم ان سبزیوں سے زکوٰۃ نہیں لے سکتے کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ [13]

 لیکن اس روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت مرسل ہے۔ [14]

٭ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیرا، ککڑی، تربوز، انار اورگنے سے زکوٰۃ معاف فرمائی ہے۔ [15]

 لیکن اس روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس میں ضعف اور انقطاع پایا جاتا ہے، اس لیے یہ بھی قابل حجت نہیں ہے۔ [16]

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سبزیوںمیں زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘ [17]

 اس روایت کے متعلق خود امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں مروان سنجاری راوی ضعیف ہے لہٰذا قابل حجت نہیں، چونکہ اس طرح کی تمام روایات ضعیف ہیں، اس لیے قرآن وسنت کے عمومی دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہر زمینی پیداوار سے زرعی زکوٰۃ ادا کی جائے بشرطیکہ وہ پیداوار نصاب کو پہنچ جائے۔ ہمارے ہاں بعض سبزیاں اور ترکاریاں ایسی پائی جاتی ہیں جو جلدی خراب نہیں ہوتیں مثلاً آلو، لہسن، پیاز، ادرک، ہلدی اور پیٹھا وغیرہ اور جو جلدی خراب ہونے والی ہیں مثلاً کدو، ٹینڈے، کریلے، گوبھی اور توریاں وغیرہ ان تمام سبزیوں سے زرعی زکوٰۃ دی جائے یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ ادا کیا جائے۔

 بعض علاقوں میں سورج مکھی، بانس اور سفیدا کاشت کیاجاتا ہے، ان سے بھی زرعی زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ کپاس کی فصل بھی زرعی پیداوار ہے اور خاصی منفعت بخش ہے، اس سے بھی بیسواں حصہ ادا کرنا ہو گا اگر کوئی کاشتکار تجارت پیشہ بھی ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے اس سے عشر ادا کرے پھر اسے تجارت میں فروخت کرنے کے بعد اس سے تجارتی زکوٰۃ ادا کرے یعنی کھیتی کا حساب الگ ہو گا اور تجارتی مال کی زکوٰۃ کا حساب الگ ہو گا۔

 بعض علاقوں میں گنا بھی کاشت کیا جاتا ہے، اگر اسے ملوں میں فروخت کیا جاتا ہے تو بیس ٹرالیوں میں سے ایک ٹرالی زرعی زکوٰۃ کے طور پر دی جائے۔ اس کی قیمت بطور عشر ادا کی جائے، اگر کسی نے کماد کو چارا کے طور پر استعمال کر لیا ہے تو اس میں کوئی زرعی زکوٰۃ نہیں ہو گی۔ اگر اس کماد سے گڑ، شکر یا چینی بنائی جائے تو اس سے بیسواں حصہ ادا کرنا ہو گا بشرطیکہ وہ نصاب کی حد تک پہنچ جائے۔

 بہرحال ہمارا مؤقف یہ ہے کہ زمین کی ہر پیداوار سے بیسواں یا دسواں حصہ ادا کیا جائے، اس کی بعض پیداوار کو زکوٰۃ کے لیے مخصوص کرنا محل نظر ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1] ۲/البقرة: ۲۶۷۔ 

[2] ۶/الانعام: ۱۴۱۔

[3] صحیح بخاری، الزکوٰة۔

[4] بیہقی، ص: ۹۵، ج۴۔

[5]  ۲/البقرة: ۲۶۷۔

[6] ۶/الانعام: ۱۴۲۔   

[7]  بخاری، زکوٰة: ۱۴۸۳۔

[8] مستدرك حاکم، ص: ۴۰۱، ج۱۔

[9] سنن ابن ماجہ، الزکوٰةۃ: ۱۸۱۵۔

[10]  تمام المنہ: ۳۶۹۔

[11] ۶/الانعام: ۱۴۱۔

[12]  دارقطنی، ص: ۹۷ج۲۔

[13] تلخیص الحبیر، ص: ۳۲۱، ج۲۔

[14] دارقطنی، ص: ۹۷، ج۲۔

[15]     تلخیص الحبیر، ص: ۳۲۱، ج۲۔

[16]      دارقطنی، ص: ۹۶، ج۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:204

محدث فتویٰ

تبصرے