سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(218) وقت سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنا

  • 19867
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 765

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا زکوٰۃ کسی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر وقت سے پہلے دی جا سکتی ہے، نیز کیا یہ ضروری ہے کہ وہ مقامی غرباء میں ہی تقسیم کی جائے؟ کتاب وسنت کے مطابق جواب دیا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی ضرورت مند آجائے تو اسے وقت سے پہلے زکوٰۃ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا زکوٰۃ اپنے مقررہ وقت سے پہلے ادا ہو سکتی ہے؟ تو آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ [1]

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ وقت سے پہلے دینے میں چنداں حرج نہیں ہے بشرطیکہ کوئی ہنگامی ضرورت سامنے آجائے مثلاً کوئی غریب یا نادار ہے، اسے علاج کرانے کے لیے رقم کی ضرورت ہے تو اسے زکوٰۃ کی مد سے رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس وقت زکوٰۃ فرض نہ ہو، اسی طرح بہتر ہے کہ مقامی فقراء اور ضرورت مندوں پر زکوٰۃ صرف کی جائے جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ زکوٰۃ اہل یمن کے اغنیاء سے وصول کی جائے اور ان کے ضرورت مندوں اور محتاجوں میں تقسیم کی جائے۔ [2] اسی طرح ایک صحابی حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہمارے پاس ایک زکوٰۃ وصول کرنے والا شخص آیا تو اس نے ہمارے اغنیاء سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے فقراء میں تقسیم کر دی۔ [3]

 اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کے مقامی فقراء اور ضرورت مند زیادہ حقدار ہیں لیکن ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر کسی دوسرے شہرمیں بھی زکوٰۃ بھیجی جا سکتی ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔ ’’مالداروں سے زکوٰۃ وصول کر کے فقراء پر تقسیم کر دی جائے خواہ وہ کہیں بھی ہوں۔‘‘

 بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق بہتر ہے کہ زکوٰۃ مقامی طور پر صرف کی جائے اگر مقامی طور پر ضرورت نہ ہو یا مصلحت کا تقاضا دوسرے شہر میں خرچ کرنے کا ہو تو وہاں زکوٰۃ صرف کرنے میں ان شاء اﷲ کوئی حرج نہیں ہو گا۔ البتہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ زکوٰۃ وصول کر کے جہاں بھی تقسیم کر دی جائے تو یہ فریضہ ادا ہو جائے گا اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1] مسند امام احمد، ص: ۱۰۴، ج۱۔  

[2]  بخاری، الزکوٰة: ۱۴۵۸۔ 

[3]  ترمذی، الزکوٰة: ۶۴۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:202

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ