سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(197) تعزیت کرتے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا

  • 19846
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-01
  • مشاہدات : 3047

سوال

(197) تعزیت کرتے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک معاصر ہفت روزہ میں ایک فتویٰ شائع ہوا ہے کہ میت کی تعزیت کرتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا کی جا سکتی ہے، اس کے لیے دو حدیثیں پیش کی گئی ہیں، کیا واقعی ایسے موقع پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے، جبکہ ہم اہل حدیث حضرات کا عمل اس کے خلاف ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔ معاصر ہفت روزہ کی فوٹو سٹیٹ ارسال کی جا رہی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے ہاں عام طور پر یہ رواج پایا جاتا ہے کہ کسی آدمی کی وفات کے موقع پر لوگ گلیوں میں دریاں بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں پھر مرنے والے کے لیے فاتحہ خوانی ہوتی ہے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں، تعزیت کے موقع پر اس انداز سے بیٹھنا خود محل نظر ہے پھر موجودہ طریقے کے مطابق ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے، اس سلسلہ میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں وہ اس سلسلہ میں صریح نہیں ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

1) جب حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ جنگ موتہ میں شہید ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت غمناک ہوئے، مسجد میں بیٹھے اور آپ کے چہرہ پر غم اور افسوس کے اثرات نمایاں تھے، آپ تین دن ان کے اہل خانہ کے پاس نہیں گئے، تین دن کے بعد ان کے گھر تشریف لے کر گئے اور فرمایا آج کے بعد میرے بھائی پر کسی نے رونا نہیں ہے، میرے بھائی کے بیٹوں کو میرے پاس لاؤ۔ انہیں لایا گیا تو وہ چوزوں کی طرح تھے، آپ نے فرمایا حجامت کرنے والے کو بلاؤ جب وہ آیا تو آپ نے اسے بچوں کے سر مونڈنے کا حکم دیا پھر آپ نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی۔ [1]

 اس حدیث کو تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے سلسلہ میں بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے حالانکہ یہ تعزیت کا موقع نہیں ہے کیونکہ تعزیت صرف تین دن کے لیے ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن کے بعد حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے ہیں، بچوں کی خبر گیری کی اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کی ہے، یہ حدیث تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی قطعاً دلیل نہیں ہے، ہمارے ہاں باعث نزاع وہ دعا ہے جو تعزیت کے موقع پر عام اجتماع میں ہاتھ اٹھا کر کی جاتی ہے، مذکورہ حدیث اس کے متعلق صریح نہیں ہے۔

2) غزوۂ اوطاس کے موقع پر حضرت ابو عامر عبید رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی کہ اے اللہ! ابو عامر عبید رضی اللہ عنہ کو معاف کر دے۔ [2]

 اس حدیث کو بھی تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے لیے بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عامر رضی اللہ عنہ کی وصیت پر عمل کیا ہے، اصل واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت ابو عامر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام عرض کرنا اور انہیں کہنا کہ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے کہ کہ میں نے اپنے چچا ابو عامر رضی اللہ عنہ کا پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو آپ نے پانی منگوایا، وضو کیا پھر ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: ’’اے اللہ! ابو عامر عبید رضی اللہ عنہ کو معاف کر دے اور قیامت کے دن اسے بے شمار لوگوں پر برتری عطا فرما۔‘‘ [3]

 اس روایت میں کوئی تعزیت کا موقع نہیں ہے بلکہ انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی اپیل کرنا، آپ نے ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی، اس حدیث سے تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا مسئلہ کشید کرنا محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] مسند امام احمد، ص: ۲۰۴، ج۱۔   

[2] صحیح بخاری، المغازی: ۴۳۲۳۔

[3]   صحیح بخاری، المغازی: ۴۳۲۳۔  

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:187

محدث فتویٰ

تبصرے