سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(193) میت کو غسل دینے والے کے لیے نہانا؟

  • 19842
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1506

سوال

(193) میت کو غسل دینے والے کے لیے نہانا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میت کو غسل دینے والے کے لیے نہانا ضروری کیوں ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کو غسل دینا بہت بڑی فضیلت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے کسی مسلمان کوغسل دیا اور اس کے عیب کو چھپایا اللہ تعالیٰ اسے چالیس مرتبہ معاف کر دیتا ہے۔‘‘ [1]لیکن اس پروانہ مغفرت کے لیے دو شرائط ہیں:

٭ اگر دوران غسل کوئی ناپسندیدہ بات سامنے آئے تو اسے چھپائے اور کسی سے بیان نہ کرے جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔

٭ یہ کام محض اللہ کو راضی کرنے کے لیے کرے، کسی قسم کا دنیوی مفاد پیش نظر نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسی کام کو شرف قبولیت بخشتا ہے جو صرف اس کی رضا کے لیے ہو۔

 حدیث میں اس امر کی وضاحت ہے کہ جو آدمی میت کو غسل دے وہ خود بھی غسل کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو شخص کسی میت کو نہلائے وہ غسل کرے اور جو اسے اٹھائے وہ وضو کرے۔‘‘ [2]

 اس حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کو نہلانے والے کے لیے غسل کرنا ضروری ہے لیکن دیگر قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل مستحب ہے واجب نہیں۔ بلکہ امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اسے غسل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ وضو ہی کافی ہے، تاہم دیگر احادیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امر استحبابی ہے کیونکہ ممکن ہے کہ نہلاتے وقت کوئی ایسی چیز لگ گئی ہو جس کا دور کرنا ضروری ہے، بلکہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’جب تم میت کو غسل دو تو تم پر غسل ضروری نہیں کیونکہ تمہارے مردے نجس نہیں ہوتے، اپنے ہاتھ دھو لو یہی کافی ہے۔‘‘ [3]

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میت کو غسل دیا کرتے تھے، اس کے بعد کوئی غسل کر لیتا اور کوئی نہیں کرتا تھا۔ [4]

 ان احادیث و آثار کے پیش نظر میت کو غسل دینے والے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ خود بھی غسل کرے البتہ بہتر ہے کہ وہ غسل کر لے تاکہ شکوک و شبہات دور ہو جائیں۔ (واللہ اعلم)


[1] مستدرک حاکم، ص:۳۵۴،ج۱۔

[2] ابوداود، الجنائز: ۳۱۶۱۔

[3] مستدرک حاکم، ص: ۳۸۶،ج۱۔

[4] تاریخ بغداد، ص: ۴۲۴، ج۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:184

محدث فتویٰ

تبصرے