سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(166) قبرستان کے علاوہ جگہ پر قرآن خوانی کرنا

  • 19815
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1556

سوال

(166) قبرستان کے علاوہ جگہ پر قرآن خوانی کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہل حدیث شمارہ نمبر ۱۷ مجریہ ۲۳ اپریل میں قبرستان میں قرآن خوانی کے متعلق ایک فتویٰ شائع ہوا ہے، آپ نے لکھا ہے کہ قبرستان چونکہ قراءت قرآن کا محل نہیں ہے لہٰذا اس میں قرآن خوانی کا اہتمام خلاف شریعت ہے، اس فتویٰ میں عدم جواز کے لیے اس امر کو علت قرار دیا گیا ہے کہ قبرستان، قراءت قرآن کا محل نہیں ہے، اس سے یہ متبادر ہوتا ہے کہ جو مقامات قراءت قرآن کا محل ہیں وہاں قرآن خوانی کی جا سکتی ہے مثلاً:

٭ گھروں میں برکت کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

٭ کارخانوں اور فیکٹریوں میں کاروبار کی ترقی کے لیے قرآن خوانی کرائی جاتی ہے۔

٭ کسی بیمار کی شفایابی کے لیے بھی گھروں میں قرآن پڑھایا جاتا ہے۔

٭ ناگہانی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے بسوں میں قرآن خوانی بھی کی جاتی ہے۔

٭ شادی ہال میں قرآن خوانی کا اہتمام ہوتا ہے۔

٭ فوت شدگان کے ایصال ثواب کے لیے حفاظ کرام کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں، اس قسم کا اہتمام گھروں اور مساجد میں کیا جاتا ہے۔

 یہ مذکورہ تمام مقامات قرآن پڑھنے کا محل ہیں، کیا ان مقامات میں قرآن خوانی کرائی جا سکتی ہے، امید ہے کہ اس مسئلہ کی وضاحت اولین فرصت میں کر دیں گے تاکہ آپ کے استعمال کردہ الفاظ سے شکوک وشبہات پیدا نہ ہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل بات یہ ہے کہ مروجہ قرآن خوانی کئی ایک اعتبار سے محل نظر ہے، قبرستان میں اس کا اہتمام کسی طرح سے بھی درست نہیں، اس کے ناجائز ہونے کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں سے ہم نے صرف ایک علت کو بیان کیا تھا کہ قبرستان قراءت قرآن کا محل نہیں، لہٰذا وہاں قرآن خوانی کا اہتمام خلاف شریعت ہے، اس عبارت کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ جن مقامات میں قرآن پڑھا جا سکتا ہے وہاں مروجہ قرآن خوانی جائز ہے، بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق مروجہ قرآن خوانی برائے حصول برکت یا شفاء مریضاں یا ترقی کاروبار یا ایصال ثواب ناجائز ہے، کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ عمل ثابت نہیں ہے، اگر ایسا کرنا خیروبرکت کا ذریعہ ہوتا تو اسلاف ضرور عمل میں لاتے، خیرالقرون میں اس کا اہتمام نہ کرنا اس کے محل نظر ہونے کے لیے کافی ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

’’جو شخص ہمارے اس امر دین میں نیا کام کرتا ہے وہ مردود اور ناقابل قبول ہے۔‘‘ [1]

 نیز آپ کا فرمان ہے: ’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہماری مہر ثبت نہیں وہ رد کر دینے کے قابل ہے۔‘‘ [2]

 اس طرح کے غیر مشروع کام کوجائز قرار دینا انتہائی سنگین اقدام ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دین مکمل نہیں ہوا تھا، حالانکہ قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی دین اسلام مکمل ہو چکا تھا، اب اس میں کسی چیز کے اضافہ کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، ایسا کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔

 بہرحال مروجہ قرآن خوانی بدعت ہے اور اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (وا ﷲ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الصلح: ۲۶۹۷۔

[2] صحیح مسلم، الاقضیہ: ۱۷۱۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:163

محدث فتویٰ

تبصرے