سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(163) درازی عمر کی دعا دینا

  • 19812
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 5655

سوال

(163) درازی عمر کی دعا دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ﷲ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ رکھے یا اﷲ تعالیٰ آپ کی عمر کو طویل کرے، اس طرح کی دیگر دعائیں شرعاً کیا حیثیت رکھتی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کسی کو دعا دینے کے آداب سکھائے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ دعا کرنے میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ مذکورہ پہلی دعا اﷲ تعالیٰ کی قائم کردہ حد سے تجاوز کرنا ہے کیونکہ دنیا میں دوام اور ہمیشگی محال ہے، ہمیشہ رہنا اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے یہ کسی اور کے لیے نہیں مانگی جا سکتی، ارشادباری تعالیٰ ہے:

﴿ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍۚۖ۰۰۲۶ وَّ يَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِۚ﴾[1]

’’جو کچھ زمین میں ہے، سب نے فنا ہونا ہے، صرف تمہارے رب کے چہرے کو بقا ہے جو صاحب جلال وعظمت ہے۔‘‘

 اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب فرمایا:

﴿وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ١ اَفَاۡىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ﴾[2]

’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آپ سے پہلے کسی آدمی کو بقاء اور دوام نہیں بخشا، اگر آپ فوت ہو جائیں تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے؟‘‘

 ان تصریحات کی وجہ سے کسی کے لیے ہمیشہ رہنے کی دعا نہیں کرنی چاہیے، اسی طرح کسی کو یہ دعا دینا کہ اﷲ آپ کو طویل عمر عطا فرمائے، یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ طول بقا اچھی اور بری دونوں ممکن ہیں، وہ انسان انتہائی برا ہے جس کی عمر طویل ہو لیکن کردار انتہائی گندا ہو، اگر اس میں خیروبرکت کے الفاظ کا اضافہ کر دیا جائے تو اس میں چنداں حرج نہیں مثلاً یوں کہا جائے اﷲ خیروبرکت کے ساتھ آپ کو طویل عمر عطا فرمائے یا اﷲ تعالیٰ آپ کو اپنی اطاعت فرمانبرداری میں لمبی عمر عطا کرے۔ بہرحال کسی کے لیے بھلائی کی دعا کرنی چاہیے اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے جو اس کے لیے وہی کچھ مانگتا ہے جو یہ دوسرے انسان کے لیے اﷲ سے طلب کرتا ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1] ۵۵/الرحمن: ۲۶،۲۷۔  

[2] ۲۱/الانبیاء: ۳۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:160

محدث فتویٰ

تبصرے