سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(522) بیمہ زندگی کے متعلق وضاحت

  • 1980
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2044

سوال

(522) بیمہ زندگی کے متعلق وضاحت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ملک میں کاروبار بیمہ زندگی عام ہے اس کے متعلق وضاحت چاہوں گا کچھ علماء کی رائے ملی ہے آپ بھی اس بارے میں اپنی رائے لکھ کر بھیجیں (شکریہ) اس بارے میں ایک دو مثالیں پیش کروں گا ان کو مد نظر رکھیے گا بیمہ میں تحفظ آدمی حاصل کرتا ہے تحفظ کے بدل ایک قیمت ادا کرنی ہوتی ہے بیمہ دار آدمی رقم ادا کرتا جاتا ہے اور حکومت اس کے بدل انسانی جان کا تحفظ فراہم کرتی ہے ۔

(1) جیسے کوئی آدمی گاڑی خریدتا ہے تو اس میں وہ محسوس کرتا ہے کہ اگر دوران سفر پنکچر ہو گئی تو وقت بہت ضائع ہو گا تو آدمی اس وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں ایک اضافی ٹائر رکھ لیتا ہے گویا کہ اس نے مسافروں کے وقت کے ضائع ہونے کو بچا لیا جیسا کہ گاڑی تو ۴ یا ۵ لاکھ کی ہوتی ہے لیکن اگر معمولی قیمت کا اضافی ٹائر نہ ہو تو تھوڑی سی قیمت کے بدلے کتنا نقصان اٹھانا پڑے گا ۔یا گاڑی میں آگ بھڑک اٹھنے کا اندیشہ بھی ہر دم ہوتا ہے تو اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک آلہ آگ بجھانے والا بھی ساتھ رکھا ہوتا ہے کہیں آگ بھڑک اٹھے تو اس پر قابو پایا جا سکے ۔

(2) کچھ بہت اونچی منزلیں ہوتی ہیں جن میں کچھ لوگوں نے آسمانی بجلی سے بچائو کی کچھ تدابیر بذریعہ آلات کی ہوئی ہوتی ہیں کہ کہیں آسمانی بجلی کے گرنے سے بلڈنگ کو نقصان نہ ہو جائے وغیرہ وغیرہ ہمارے روز مرہ کے معمول کے مطابق ہم کئی کام بذریعہ انشورنش کرتے رہتے ہیں مثلاً کارخانہ میں یا گھر میں بجلی کے چلے جانے کی وجہ سے اس کے مقابل کچھ انتظام کیا ہوا ہوتا ہے مثلاً موم بتی یا کارخانوں میں جنریٹر کا انتظام اکثر کیا ہوا ہوتا ہے یہ سب ایک انشورنش کی قسمیں ہیں ایسے ہی گاڑیوں کی انشورنش وغیرہ ہوتی ہے کہ آگ لگ گئی یاکوئی نقصان ہو گیا تو معاہدہ کے مطابق اس کا نقصان پورا کیا جاتا ہے ایک قیمت کے بدلے ۔

بہرحال یہ مندرجہ بالا مثالیں اگر غور سے دیکھی جائیں تو ان میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ تمام لوگوں نے ایک آنے والے نقصان کا بندوبست کیا ہوا ہوتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آ رہی خواہ نقصان ونفع کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے لیکن آدمی کچھ نہ کچھ کرتا ہے اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بجلی کے بچائو کے لیے کچھ لوگوں نے گھروں میں کچھ قیمتی آلات نصب کر رکھے ہیں کہ اگر بجلی کا جھٹکا لگ جائے تو بجلی بند ہو جاتی ہے جس سے آدمی کو نقصان تو ہو جاتا ہے لیکن انسانی جان بچ جاتی ہے تو ایسے ہی بیمہ زندگی کی مثال لیجئے گا اس میں تحفظ ہوتا ہے کہ اگر آدمی بیمہ والے کی موت واقع ہو جائے تو اس کے بیمہ کے بدل اس کے بیوی بچوں کی مدد کی جائے گی اور اگر موت واقع نہ ہو تو اس کا بدل ادا کیا جائے گا موت وحیات تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جب کہ دوسرے نقصانات جن کی مثالیں عرض کی ہیں وہ بھی تو اللہ تعالیٰ کے ہی اختیار میں ہیں وہ سب ذہن قبول کر لیتا ہے اور بیمہ زندگی کے متعلق نہیں حالانکہ دونوں میں مقصد ایک ہی ہے وہ بھی ایک نقصان کی تلافی کچھ قیمتاً وصول کی ہے اور یہ بھی انسانی جان اگر ضائع ہو جائے تو اس کا تحفظ جو قیمتاً وصول کیا گیا ہوتا ہے اس میں کوئی قباحت معلوم نہیں ہو رہی ۔ آگے آپ اپنی مدبرانہ رائے سے نوازیں ۔ شکریہ ؟ ملکی دفاع اور تحفظ کے لیے ہم نے کیا کیا نہیں کیا ہوتا مالی اور انسانی تحفظ کے لیے کتنی قیمتی مشینریاں۔  ایٹم بم اور کئی طرح کے آلات اور ملکی انتظام کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن سب کچھ ہوتا تو مالک کی طرف سے کسی کے بس میں نہیں کہ نفع یا نقصان کا مالک بنے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ لکھتے ہیں ’’بیمہ میں تحفظ آدمی حاصل کرتا ہے تحفظ کے بدل ایک قیمت ادا کرنی ہوتی ہے بیمہ دار آدمی رقم ادا کرتا جاتا ہے اور حکومت اس کے بدل انسانی جان کا تحفظ فراہم کرتی ہے ‘‘  اب سوال یہ ہے کہ انسانی جان کا تحفظ حکومت کے ملک میں ہے ؟ ظاہر بات ہے کہ وہ حکومت کے ملک میں نہیں اس لیے وہ مجاز نہیں کہ وہ اسے بیچ کر اس کا بدل ایک قیمت وصول کرے نہ ہی بیمہ دار  اس کا مجاز ہے کہ جو چیز حکومت کے ملک میں نہیں اس کا بدل ایک قیمت دے کر اسے خریدے کیونکہ رسول اللہﷺ نے ہر اس چیز کی بیع خرید  وفروخت سے منع فرمایا ہے جو ملک میں نہ ہورہیں آپ کی پیش کردہ مثالیں تو وہ انتہائی بے موقع ومحل ہیں کیونکہ ان میں اضافی ٹائر ، آگ بجھانے والے آلہ ، آسمانی بجلی کی روک تھام کرنے والے آلہ اور بجلی پیدا کرنے والے آلہ کی بیع کا ذکر ہے اور واضح ترین بات ہے کہ اضافی ٹائر اور مذکورہ بالا تینوں آلے بیع سے پہلے بائع کے ملک میں اور بیع کے بعد مشتری کے ملک میں ہوتے ہیں جبکہ انسانی جان کا تحفظ نہ تو بائع (حکومت یا کمپنی) کے ملک میں ہے اور نہ ہی مشتری (بیمہ دار) کے ملک میں ۔ کم از کم مجھے تو آپ جیسے دانائوں سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ بھی انسانی جان کے تحفظ کی بیع کو اضافی ٹائر اور مذکورہ بالا تین آلوں کی بیع کی مثل قرار دے سکتے ہیں بہرحال بیمہ ناجائز ہے اس کے جواز پر کوئی آیت یا کوئی حدیث آپ کو معلوم ہے تو پیش فرمائیں ادھر ادھر کی بے موقع ومحل مثالوں سے بیمہ کا جواز ثابت نہیں ہو سکتا۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

خرید و فروخت کے مسائل ج1ص 359

محدث فتویٰ

تبصرے