سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(149) نماز مختصر اور خطبہ لمبا کرنا

  • 19798
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1460

سوال

(149) نماز مختصر اور خطبہ لمبا کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں خطباء حضرات خطبہ بہت لمبا کرتے ہیں، جس سے سامعین اکتا جاتے ہیں اور نماز بہت مختصر پڑھاتے ہیں، کیا قرآن وحدیث میں اس کا جواز ہے؟ وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عقل مند اور صاحب بصیرت خطیب وہ ہے جو حالات پر نظر رکھتے ہوئے خطبہ دیتے وقت جامع کلمات استعمال کرے اور مختصر گفتگو کرے کیونکہ مختصر اور جامع بات جلدی ذہن نشین ہو جاتی ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم طویل خطبے سے احتراز فرماتے تھے، چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بہت طویل وعظ ونصیحت نہیں فرماتے تھے بلکہ چند مختصر کلمات پر ہی اکتفاء فرماتے تھے۔ [1]خطبہ کے متعلق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا درج ذیل ارشاد گرامی ہمارے واعظین اور خطباء کے لیے مشعل راہ ہے، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کی لمبی نماز اور چھوٹا خطبہ اس کی فقاہت کی علامت ہے۔‘‘[2] اس میں نماز اور خطبہ کا باہمی تقابل مراد نہیں ہے بلکہ عام نمازوں سے جمعہ کی نماز طویل اور عام خطبوں سے جمعہ کا خطبہ مختصر ہونا چاہیے، چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور خطبہ اعتدال کے ساتھ ہوتے تھے۔ [3]

 یہ بھی ذہن میں رہے کہ نماز بھی اتنی طویل نہ ہو کہ مقتدی اکتا جائیں اور وہ مشقت میں پڑ جائیں جیسا کہ ائمہ حضرات کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے متعلق تنبیہہ فرمائی ہے۔ بہرحال ہمارے خطباء حضرات کو چاہیے کہ وہ وقت اور سامعین کی نزاکت کا خیال رکھیں اور اعتدال کے ساتھ نماز اور خطبہ ادا کریں، دواڑھائی گھنٹے پر مشتمل خطبہ جمعہ کسی طرح بھی درست نہیں، خطبہ جامع، مختصر اور حالات کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے اور نماز کا بھی جھٹکا کرنے کے بجائے اسے اعتدال کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ (واﷲ اعلم)


[1] ابو داود، الصلوٰة: ۱۱۰۷۔

[2] صحیح مسلم، الجمعہ: ۸۶۹۔

[3] مسلم، الجمعہ: ۸۶۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

 

جلد3۔صفحہ نمبر 149

محدث فتویٰ

تبصرے