السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کوئی شخص نماز عید میں بحالت تشہد ملے تو اسے کیا کرنا چاہیے یا اس کی نماز عید رہ جائے تو کیا اسے قضا کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے؟ وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کہ نماز کا جو حصہ امام کے ساتھ مل جائے اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے پورا کر لو۔‘‘ [1]
یہ حکم مطلق ہے کہ امام کے ساتھ جتنی نماز ملے وہ پڑھ لینی چاہیے اور جو رہ جائے اسے بعدمیں پورا کر لینا چاہیے۔ اس بناء پر جو شخص نماز عید کے لیے بحالت تشہد شامل ہوا ہے اسے چاہیے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو جائے اور نماز عید کے طریقہ کے مطابق دو رکعت نماز ادا کر لے جیسا کہ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر آدمی امام کو تشہدمیں پائے تو اس کے ساتھ بیٹھ جائے، اور جب امام سلام پھیر لے تو کھڑا ہو جائے اور دو رکعت ادا کر لے اور ان رکعات میں تکبیرات بھی کہے۔‘‘ [2]
جس کی نماز عید رہ جائے وہ اس کی قضا اسی طرح ادا کرے جس طرح نماز عید پڑھی جاتی ہے یعنی وہ رکعت ادا کرے اور اس میں اس طرح تکبیریں اور ذکر کرے جیسے نماز عید میں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں سعودی افتاء کمیٹی کا فتویٰ حسب ذیل ہے:
’’نماز عیدین کی ادائیگی فرض کفایہ ہے اگر اتنے افراد پڑھ لیں جو کافی ہوں تو باقی افراد سے اس کا گناہ ساقط ہو جاتا ہےاور جس کی یہ نماز فوت ہو جائے اور وہ اس کی قضا دینا چاہے تو اس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ خطبہ کے بغیر نماز عید کے طریقہ کے مطابق اسے ادا کر لے۔‘‘ [3]
[1] صحیح بخاری، الاذان: ۶۳۶۔
[2] مغنی، ص: ۲۸۵، ج۳۔
[3] فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ، ص: ۳۰۶، ج۸۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب