سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(129) امام کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کوآگے کرنا

  • 19778
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2832

سوال

(129) امام کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کوآگے کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عالم دین کسی مسجد میں مستقل طور پر امام اور خطیب ہیں، لیکن مسجد کی انتظامیہ ان کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے عالم دین کو جمعہ کے لیے منبر پر اور نماز کے لیے مصلیٰ پر کھڑا کر دیتی ہے، کیا ایسا کرنا قرآن و حدیث کی رو سے جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے ہاں ایسے معاملات باہمی مشاورت سے طے ہونے چاہئیں، اگر امام یا خطیب نے کہیں جانا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ قبل از وقت انتظامیہ کو مطلع کرے تاکہ وہ کوئی متبادل بندوبست کر سکیں اور اگر انتظامیہ نے کسی کو دعوت دینی ہے تو اس کے متعلق امام یا خطیب سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے اوقات کو مصروف کر لے، لیکن اکثر وبیشتر اس سلسلہ میں ہم لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں، کچھ خطباء ایسے خود سر ہوتے ہیں کہ انتظامیہ کو اطلاع دئیے بغیر اپنا جمعہ کسی دوسرے مقام پر دے دیتے ہیں اور کسی مقام پر انتظامیہ پر دولت کا بھوت سوار ہوتا ہے وہ امام یا خطیب کو غلام اور نوکر خیال کرتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں کسی دوسرے کو منبر پر بیٹھا دیتے ہیں یا مصلیٰ جماعت پر کھڑا کر دیتے ہیں، جبکہ امام یا خطیب کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا، ہمارے رجحان کے مطابق خطیب یا امام مسجد کا سر براہ اور مسجد اس کا گھر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’کوئی آدمی کسی آدمی کے دائرہ اقتدار میں امامت نہ کرائے۔‘[1]

 ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ کسی آدمی کے گھر میں یا اس کے دائرہ اقتدار میں کوئی دوسرا امامت نہ کرائے۔[2]

 ہاں اگر امام یا خطیب سے اجازت لے لی جائے تو دوسرا شخص خطبہ دے سکتا ہے اور امامت بھی کرا سکتا ہے جیسا کہ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے کہ مالک خانہ کی اجازت سے کوئی دوسرا امامت کرا سکتا ہے، حدیث میں یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا مہمان ہے تو ان کی امامت نہ کرائے بلکہ ان (مقامی لوگوں) میں سے ہی کوئی ان کی امامت کرائے۔[3]

 ہاں اگر مہمان آدمی اہل علم اور صاحب فضل لوگوں میں سے ہے تو امام راتب کے لیے اخلاقی اعتبار سے بہتر ہے کہ وہ اسے امامت یا خطابت کی دعوت دے اور اسے آگے کرے، بہرحال ایسے مسائل افہام و تفہیم کے ذریعے حل ہونے چاہئیں ہر ایک کو دوسرے کی قدر شناسی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح مسلم، المساجد: ۶۷۳

[2] ابوداود، الصلوۃ: ۵۸۲۔

[3] مسند امام احمد،ص:۴۳۶،ج۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

 

جلد3۔صفحہ نمبر 134

محدث فتویٰ

تبصرے