سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(128) اہل خانہ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا

  • 19777
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1031

سوال

(128) اہل خانہ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم میاں بیوی اور بچے رات دیر سے اپنے گھر واپس آئیں، اگر گھر میں نماز باجماعت ادا کرنا ہو تو بیوی کو اپنے ساتھ کھڑا کیا جائے اور بچے پیچھے کھڑے ہوں یا کوئی اور صورت ہے؟ اس کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں آگاہ کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گھر میں نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے، خاص طور پر جن خواتین و حضرات پر مسجد میں جانا ضروری نہیں وہ ضرور اس کی پابندی کریں، متعدد افراد کے لحاظ سے نماز باجماعت کی کئی ایک صورتیں ممکن ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

 اکیلا آدمی بھی جماعت سے نماز ادا کر سکتا ہے خواہ وہ خاتونِ خانہ ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ ایک حدیث سے اس کا اشارہ ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو صعصعہ انصاری رضی اللہ عنہ کو کہا تھا کہ تو جنگل میں اپنی بکریوں کے پاس رہنا پسند کرتا ہے، اگر تو نماز کے لیے اذان کہے تو اپنی آواز کو اذان دیتے ہوئے خوب اونچا کرو، جہاں تک تیری آواز جائے گی وہاں کی ہر چیز تیرے لیے گواہی دے گی۔ [1] اس حدیث سے اشارہ ملتا ہے کہ اکیلا آدمی بھی نماز باجماعت ادا کر سکتا ہے۔

٭ اگر امام کے ساتھ کوئی دوسرا آدمی ہے تو امام کو چاہیے کہ اسے اپنی دائیں جانب کھڑا کرے وہ خواہ بچہ ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو رات کے وقت اپنی دائیں جانب کھڑا کر کے نماز باجماعت ادا کی تھی۔[2]

 اگر امام کے علاوہ دو یا اس سے زیادہ مقتدی ہوں تو امام انہیں اپنے پیچھے کھڑا کرے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے دائیں جانب کھڑا کیا پھر ایک دوسرا شخص آ گیا تو وہ آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو دھکیل کر اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ [3]

 البتہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دو مقتدیوں کو اپنے دائیں بائیں کھڑا کر لیتے تھے۔ [4]لیکن یہ موقوف روایت ہے جسے مرفوع حدیث کے مقابلہ میں مرجوح قرار دیا جائے گا۔

٭ اگر مقتدیوں میں کوئی عورت بھی ہے تو وہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہو گی اگرچہ وہ اکیلی ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے ایک مرتبہ اپنے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کی تو میں اور ایک دوسرا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے اور ہماری والدہ ام سلیم ہم سب کے پیچھے تھیں۔ [5]

 صورت مسؤلہ میں عورت امام کے پیچھے ہی کھڑی ہو گی خواہ اکیلی ہو یا اس کی ہمراہ بچے بھی ہوں وہ کسی صورت میں مردوں کے برابر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الاذان: ۶۰۹۔ 

[2]  صحیح بخاری، الاذان :۷۲۸۔ 

[3]  صحیح مسلم،الزہد:۳۰۱۰۔

[4] بیہقی،ص:۸۳،ج۲۔            

[5] صحیح البخاری، الاذان:۲۷۲۷۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد3۔صفحہ نمبر 133

محدث فتویٰ

تبصرے