سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(126) فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا

  • 19775
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-29
  • مشاہدات : 741

سوال

(126) فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے معاشرہ میں کچھ بزرگ فجر کی سنت ادا کرنے کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کا اہتمام کرتے ہیں، جبکہ نوجوان نسل میں یہ اہتمام متروک ہوتا جا رہا ہے، اس کی حیثیت پر روشنی ڈالیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فجر کی سنتوں کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنا ایک مستحب عمل ہے ضروری نہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں دو عنوان قائم کیے ہیں پہلا عنوان یہ ہے کہ ’’فجر کی سنتوں کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنا‘‘ اسے ثابت کرنے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعتیں پڑھ لیتے تو اپنے دائیں پہلو پرلیٹ جاتے۔[1]

 دوسرا عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’جو شخص سنتوں کے بعد گفتگو کرے اور لیٹنے کا اہتمام نہ کرے‘‘ اس کے لیے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کردہ ایک حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو سنت پڑھ لیتے تو اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ محو گفتگو ہوتے بصورت دیگر آپ لیٹ جاتے تا آنکہ جماعت کا وقت ہو جاتا۔ [2]

 ان روایات کی روشنی میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا ضروری نہیں ہے، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ امر ثابت ہے اس لیے اس کا اہتمام کرنا استحباب کا درجہ رکھتا ہے اور باعث ثواب ہے۔ بعض مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم بھی دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی فجر کی دو سنتیں پڑھ لے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹے۔ [3]

 اس امر کے پیش نظر بعض ائمہ کرام نے سنتوں کے بعد لیٹنے کے عمل کو واجب قرار دیا ہے لیکن یہ موقف محل نظر ہے، ہمارے نزدیک یہ عمل مستحب ہے اگرچہ بعض مقامات پر اس عمل کو چھوڑ دیا گیا ہے جسے دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس سلسلہ میں تشدد کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] بخاری، التہجد: ۱۱۶۱۔

[2] صحیح بخاری، التہجد: ۱۱۶۱۔

[3]  مسند امام احمد، ص:۴۱۵،ج۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:132

محدث فتویٰ

تبصرے