سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(105) نماز استسقاء کا طریقہ

  • 19754
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 9563

سوال

(105) نماز استسقاء کا طریقہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز استسقاء کا کیا طریقہ ہے؟ کیا امام دوسری رکعت میں رکوع کے وقت قنوت وتر کی طرح کرے گا اور کیا وہ الٹے ہاتھوں دعا کرے گا؟ کتاب و سنت کے مطابق اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز استسقاء میں دوران نماز دعا کرنے کا ثبوت نہیں مل سکا بلکہ نماز سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ بارش کی دعا کی، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش نہ ہونے کی بناء پر قحط سالی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ میں منبر لے جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہاں منبر رکھ دیا گیا، آپ نے لوگوں سے ایک دن کا وعدہ کیا کہ وہ سب اس دن باہر نکلیں، پھر آپ اس وقت نکلے جب سورج کا ایک کنارہ ظاہر ہو چکا تھا، آپ منبر پر فروکش ہوئے۔ آپ نے لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمائی اور اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا کی۔ آپ نے آہستہ آہستہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھانا شروع کیا حتیٰ کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی، اس کے بعد آپ لوگوں کی طرف پشت کر کے کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر کو الٹا کیا پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور منبر سے نیچے تشریف لائے پھر دو رکعت ادا کیں، اللہ تعالیٰ نے اس لمحہ آسمان میں بادل ظاہر کیے وہ گرجے اوربجلی چمکی پھر بارش برسنے لگی۔‘‘ [1]

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دو رکعت پڑھنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور دعا مانگی۔ جب کہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دو رکعت پڑھنے کے بعد خطبہ دیا لیکن وہ عام خطبہ نہیں تھا، بلکہ وہ انکساری، عاجزی، اللہ کی کبریائی اور دعا پر مشتمل تھا۔ [2]

 بارش کے لیے نماز ادا کیے بغیر بھی دعا کرنا مشروع ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ بارش کے لیے دعاکی تھی ممکن ہے کہ آپ نے جمعہ کی دو رکعت کو ہی کافی خیال کیا ہو، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان قائم کیا ہے۔[3] بارش کے لیے دعا کرتے وقت اپنے ہاتھ الٹے کرنے کے متعلق ہمارا مؤقف یہ ہے کہ الٹے ہاتھ دعا مانگنا منع ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم اللہ سے سوال کرو تو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے مانگا کرو، ہاتھوں کی پشت سے نہ مانگا کرو۔‘‘[4]

 دعا کا یہ ادب عام دعاؤں کے لیے ہے مگر نماز استسقاء میں جب قحط اور خشک سالی دور کرنے کی دعا کی جائے تو نیک شگونی کے طور پر ہاتھوں کی پشت اوپر کی جانب کی جائے بلکہ مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری دعا میں ہاتھوں کی پشت اوپر نہ رکھی جائے بلکہ ایک دفعہ اشارہ کر دیا جائے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے دعا فرمائی تو اپنے دونوں ہاتھ الٹی سمت سے آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ فرمایا۔ [5]

 امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بلاؤں اور مصیبتوں کو دور کرنے کے لیے جب دعا کی جائے تو الٹے ہاتھوں سے دعا مانگنا مشروع ہے اور جب کوئی چیز مانگنا ہو تو سیدھے ہاتھ آسمان کی طرف کیے جائیں۔ [6]

 ہاتھ الٹے کرنے سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری حالت کو تبدیل کر دے جیسا کہ چادر الٹنے میں حکمت بیان کی جاتی ہے، البتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعاء استسقاء الٹے ہاتھوں سے کی جائے، آپ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کے لیے اس طرح دعا کرتے تھے پھر انہوں نے اپنے ہاتھ لمبے کر کے دکھائے اور اپنی ہتھیلیوں کو زمین کی طرف کیا۔ [7]

 بہرحال ہاتھوں کی پشت کو آسمان کی طرف کرنا اور چادروں کو پلٹنا یہ نیک فالی کے طور پر ہے یعنی اے اللہ! جس طرح ہم نے اپنے ہاتھ الٹے کر لیے ہیں اور چادروں کو پلٹ لیا ہے تو بھی موجودہ صورت حال کو اس طرح بدل دے یعنی بارش برسا کر قحط سالی ختم کر دے اور تنگی کو خوشحالی میں بدل دے، لیکن نماز وتر کی طرح دوران نماز دعا کرنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  ابواود، الصلوٰۃ:۱۱۷۳۔ 

[2] ترمذی، الصلوٰۃ:۵۵۵۔  

[3] صحیح بخاری، الاستسقاء باب نمبر۹۔

[4] ابوداود، الوتر:۱۴۸۶۔        

[5] مسلم، الاستسقاء:۸۹۶۔  

[6]  فتح الباری،ص:۶۶۸،ج۲۔

[7] ابوداود، الاستسقاء:۱۱۷۱۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

 

جلد3۔صفحہ نمبر 116

محدث فتویٰ

تبصرے