السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بوقت مجبوری رکوع و سجود کے بغیر نماز ادا کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں مکمل راہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز کے کچھ اعمال یہ حیثیت رکھتے ہیں کہ اگر انہیں عمداً یا بھول کر چھوڑ دیا جائے تو پوری نماز باطل ہو جاتی ہے یا وہ رکعت باطل ہو جاتی ہے جس میں وہ عمل چھوٹ گیا ہو اور بعد والی رکعت خود بخود اس متروکہ عمل والی رکعت کے قائم مقام ہو جاتی ہے، دوران نماز اس قسم کے عمل کو رکن کہا جاتا ہے، رکوع اور سجدہ بھی ارکان نماز میں سے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اركَعوا وَاسجُدوا﴾[1]
’’اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرتے رہو۔‘‘
اس آیت کریمہ سے دوران نماز رکوع اور سجدہ کی رکنیت ثابت ہوتی ہے، علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوران نماز ہر رکعت میں رکوع اور سجدہ کرنا ثابت ہے لہٰذا قرآن و سنت سے رکوع اور سجدہ کی فرضیت ثابت ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، ہاں اگر کوئی مجبوری ہو تو رکوع اور سجدہ کی ادائیگی میں تبدیلی ہو سکتی ہے مثلاً میدان جنگ میں اگر نماز ادا کرنا ہو تو چلتے پھرتے نماز ادا کی جا سکتی ہے اور اس میں رکوع اور سجدہ کی ادائیگی عام طریقہ سے ہٹ کر ہو گی، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’دشمن کا پیچھا کرنے والے یا جس کا دشمن پیچھا کر رہا ہو وہ سواری کی حالت میں اشارے سے نماز ادا کر لے۔‘‘ [2]
اسی طرح اگر سفر کے دوران نماز ادا کرنا پڑے اور قیام ممکن نہ ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھی جا سکتی ہے، اس حالت میں بھی رکوع اور سجدہ عام طریقے کے مطابق ادا نہیں کیا جا سکے گا بلکہ حدیث میں اس کی کیفیت یوں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر بیٹھے بیٹھے نفل پڑھتے اور سجدہ کرتے وقت رکوع کی نسبت کچھ زیادہ جھکتے تھے۔ [3]
نیز جب انسان بیمارہو اور بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو بھی اشارہ سے رکوع اور سجدہ کیا جا سکتا ہے، الغرض رکوع اور سجدہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، البتہ ان کی ادائیگی میں تبدیلی ہو سکتی ہے، بیٹھ کر، لیٹے لیٹے نماز پڑھتے وقت رکوع اور سجدہ کرنا ہو گا، اس کے بغیر نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ایسے رکن ہیں کہ ان کے ترک سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۲۲/الحج:۷۷۔
[2] صحیح بخاری، الخوف، باب نمبر۵۔
[3] ابوداود، صلاۃ السفر:۱۲۲۷۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب