سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(52) مسجد میں دوسری جماعت کا جواز

  • 19701
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 715

سوال

(52) مسجد میں دوسری جماعت کا جواز

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں عام طور پر دینی جلسوں میں دیکھا جاتا ہے کہ نماز باجماعت ادا ہو رہی ہوتی ہے تو کچھ حضرات اپنے کام میں یا فضول باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔جب جماعت ہو جاتی ہے تو وہ اپنی جماعت کراتے ہیں۔ اسی طرح مسجد میں متعدد جماعتیں ہوتی ہیں۔ایسی جماعتوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟کیا ایک مسجد میں"اصل جماعت"کے بعد دوسری جماعت کی گنجائش ہے؟وضاحت فرمادیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر چند حضرات کسی عارضہ کی وجہ سے اصل جماعت میں شریک نہ ہوسکے ہوں بلکہ وہ تاخیر سے مسجد میں آئیں جب کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہوں تو بلاشبہ اگر وہ جماعت سے نماز ادا کر لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ جس صورت حال کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے اسے مستحسن قرارنہیں دیا جا سکتا بلکہ ایسا کرنا استحکام اور اجتماعات کو توڑنے کے مترادف ہے، اہل علم حضرات کو اس رویے پر نظر ثانی کرنا چاہیے اصل مسئلہ کی وضاحت حسب ذیل ہے۔

ایک ہی مسجد میں فرض نماز کی دوسری جماعت جائز اور درست ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کیا کوئی شخص ہے جو اس پر صدقہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ نماز ادا کرے۔[1] 

امام حاکم اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مساجد میں دو مرتبہ جماعت کی دلیل ہے۔[2]

ہمارے رجحان کے مطابق ایک مسجد میں دوسری جماعت جائز ہے جیسا کہ درج بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے البتہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے عمل کی وجہ سے اس میں کچھ کراہت معلوم ہوتی ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ وہ ایک مرتبہ ایسی مسجد میں آئے جس میں نماز ادا کی جا چکی تھی آپ اپنے گھر گئے وہاں اہل خانہ کو جمع کیا اور ان کے ساتھ نماز باجماعت ادا فرمائی۔[3]

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ایک دفعہ مسجد میں آئے تو نماز ادا ہو چکی تھی آپ اپنے گھر واپس آئے اور اپنے شاگردوں حضرت علقمہ رحمۃ اللہ علیہ  اور حضرت اسود رحمۃ اللہ علیہ  کے ہمراہ نماز باجماعت ادا کی۔[4]

بہر حال صورت مسئولہ میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسے کوئی بھی صاحب بصیرت اہل علم مستحسن قرارنہیں دے گا۔(واللہ اعلم)


[1] ۔ابو داؤد،الصلوٰۃ:574۔

[2] ۔مستدرک حاکم ،ص:209۔ج1۔

[3] ۔مجمع الزوائد،ص:45۔ج2۔

[4] ۔مصنف عبدالرزاق،ص:409۔ج2۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:79

محدث فتویٰ

تبصرے