سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(48) ننگے سر نماز پڑھنا

  • 19697
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 6166

سوال

(48) ننگے سر نماز پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں بوڑھے تو کیا اکثر نوجوان بھی ننگے سر نماز پڑھتے ہیں، کیا ایسا کرنا سنت ہے یا سینہ زوری کے طور پراسے اختیار کیا گیا ہے؟ہم نے عرب کو دیکھا ہے کہ وہ عام حالات میں بھی کوئی خال خال ہی ننگے سر نظر آتا ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کے متعلق وضاحت کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیردے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ننگے سر نماز پڑھنے کے جواز میں کوئی شک نہیں لیکن اسے مستحب قرار دینا سینہ زوری ہے، ہمارے ہاں خواہ مخواہ بعض لوگوں نے ننگے سر نماز پڑھنے کو وجہ نزاع بنا لیا ہے۔ دراصل اس سلسلہ میں لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ننگے سر نماز ہوتی ہی نہیں ، جبکہ کچھ لوگ در عمل کے طور پر اس انتہا ء کو پہنچ گئے ہیں کہ اس مسئلہ کو محض جوازکی حد تک محدود رکھنے کے بجائے انھوں نےاسے ایک پسندیدہ عمل قراردے کر اپنا شعار بنا لیا ہے اور وہ اپنے پاس رومال یا ٹوپی ہوتے ہوئے بھی محض ضد اور ہٹ دھری سے ننگےسر ہی نماز پڑھتے ہیں، حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿يـٰبَنى ءادَمَ خُذوا زينَتَكُم عِندَ كُلِّ مَسجِدٍ ... ﴿٣١﴾... سورةالاعراف

’’اے بنی آدم  علیہ السلام !جب تم کسی مسجد میں جاؤ تو آراستہ ہو کر جاؤ۔‘‘

مسجد میں جانے سے مراد نماز کے لیے جانا ہے اور دوران نماز لباس زیب تن کرنا ہے، آیت کریمہ میں زینت سے مراد اعلیٰ قسم کا لباس نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ نماز کے لیے جسم کے اس حصہ کو ضرورڈھانپنا چاہیے جس کا کھلا رہنا معیوب ہے۔چونکہ لباس والا جسم ننگے کے مقابلہ میں مزین نظر آتا ہے اس لیے اسے زینت سے تعبیر کیا گیاہے،امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اس آیت کریمہ سے یہی مسئلہ ثابت کیا ہے۔ چنانچہ شارح بخاری حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے حدیث سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو پیش کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آیت کریمہ میں اخذ زینت سے مراد لباس زیب تن کرنا ہے۔اس کی زیبائش وآرئش قطعاً مراد نہیں ہے۔[1]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا معمول سر ڈھانپنے کا تھا جیسا کہ درج ذیل روایات سے معلوم ہوتا ہے۔

1۔حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا انھوں نے اپنی پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔[2]

2۔حضرت مغیرہ بن شعبہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  غزوہ تبوک کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز فجرسے پہلے قضاء حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے، واپسی پر آپ نے وضو کیا تو اپنی پیشانی عمامہ اور موزوں پر مسح فرمایا:[3]

3۔حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا۔[4]

4۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیاہ پگڑی باندھ رکھی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کے بغیر تھے۔[5]

اس احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عادت مبارکہ سر کو ننگا رکھنا نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاں عمامہ لباس میں شامل تھا اور پگڑی کے ذریعےسر مبارک کو ڈھانپنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول تھا۔ اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی یہی معمول تھا جیسا کہ درج ذیل واقعات و آثار سے معلوم ہوتا ہے۔

5۔حضرت نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ حضرت عبد اللہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اپنے سر پر پگڑی باندھتے تھے اور اس کے سرے کو دونوں کندھوں کے درمیان لٹکالیتے تھے۔ عبید اللہ بن عمر رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی عمامہ  باندھتے تھے اور اس کے سرے اپنے کندھوں کے درمیان لٹکالیتے تھے۔[6]

6۔سیدنا ہشام  رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت ہے وہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ  سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب سجدہ کرتے تو ان کے ہاتھ کپڑوں میں ہوتے اور ان میں ہر ایک اپنے عمامہ پر سجدہ کرتا تھا۔[7]

ان احادیث سے کم ازکم یہ تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے متعلق ہمارے اسلاف کا معمول کیا تھا؟سلف صالحین کے ہاں ننگے سر رہنا اور گھومتے پھر نا کوئی عادت نہیں ہے بلکہ یہ مغربی عادات سے ہے جو مسلمانوں میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر سرایت کر چکی ہے جیسا کہ علامہ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کی صراحت کی ہے۔[8]

ننگے سر رہنے کو معمول بنانے کو ایام حج پر قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دوران حج سر رہنا حج کا شعار ہے جس میں اور کوئی عبادت شریک نہیں ہے۔اگر یہ قیاس صحیح ہوتا تو وہ دوران نماز سر ننگا رکھنا بھی حج کی طرح فرض ہوتا۔ اس سلسلہ میں دواحادیث پیش کی جاتی ہیں جن کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے تاکہ مسئلہ کی حیثیت معلوم ہو جائے۔

(الف)ابن عساکر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بعض اوقات اپنی ٹوپی اتار کر اپنےسامنےبطورسترہ رکھ لیتے تھے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ  اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ہے، اس کے ضعف کے لیے یہی کافی ہے کہ اس روایت کو بیان کرنے میں ابن عساکرمتفرد ہے۔ویسے انھوں نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ نمبر2538۔میں اس کی خوب وضاحت کی ہے۔اگر یہ صحیح بھی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اسے سترہ کے لیے استعمال کرتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو سترہ بنانے کے لیے اور کوئی چیز نہ ملتی تھی اور سترہ ضروری ہے اور سرکا ڈھانپنا ضروری ہے اور سر کا ڈھانپنا ضروری نہیں بلکہ افضل اور بہتر ہے۔ ہمارےنزدیک اس مسئلہ کے متعلق محتاط موقف یہ ہے کہ دوران نماز سر ننگا رکھنے کو معمول بنانا پسندیدہ عمل ہے۔[9]

(ب)محمد بن منکدر رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ سید نا جابر بن عبد اللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک تہبند میں نماز پڑھی جسے انھوں نے اپنی گدی پر باندھا تھا اور ان کے باقی کپڑے لکڑی پر رکھے تھے، کسی نے ان سے کہا تم اپنے کپڑے ہوتے ہوئے ایک تہبند میں نماز پڑھتے ہوتو انھوں نے جواب دیا تاکہ تیرے جیسا بے وقوف اور جاہل مجھےدیکھ لے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں ہم لوگوں میں سے کس کے پاس دو کپڑے ہوتے تھے۔[10]

اس حدیث کے متعلق ہماری درج ذیل گزارشات ہیں۔

(الف) اس حدیث میں سر کے متعلق کوئی وضاحت نہیں ہے آیا سر پر کوئی چیز تھی یا نہیں سر کے متعلق دوسری احادیث کی طرف رجوع کرنا ہوگا جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا معمول بیان ہوا ہے جس کی ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں۔

(ب)اگر تسلیم کر لیا جائے کہ سر پر واقعی کوئی چیز نہ تھی  تو یہ ایک اضطراری حالت ہو سکتی ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت موجودہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں واقعی کپڑوں کی قلت تھی لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو وسعت دی گئی تو انھوں نے عمامے اور ٹویپوں کا استعمال کیا۔

(ج)حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کپڑے پاس ہوتے ہوئے صرف ایک کپڑے میں نماز ادا کی ، ان کا یہ معمول روزمرہ کا نہیں تھا جیسا کہ ہمارے ہاں دیکھنے میں آتا ہے، اگر روزانہ ایسا ہوتا تو سائل کو سوال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

(د)حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے یہ کام عمداًاس لیے کیا تاکہ ناوقف لوگوں پر واضح ہو جائے کہ صرف ایک کپڑےمیں بھی نماز جائز ہے۔اگرچہ سر ننگا  ہی رہے۔

(ھ)جو حضرات اس حدیث کے پیش نظر ننگے سر نماز  پڑھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ان میں سے کوئی بھی اس حدیث پر عمل نہیں کرتاکہ ایک کپڑا پہن کی نماز اداکرتا ہو، جبکہ آج یہ بات ممکن نہیں ہے تو پھر اس پر اصرار کرنا چہ معنی وارد ،یہ نزلہ صرف ٹوپی یا رومال پر ہی کیوں گرتا ہے؟کس قدر ستم ظریفی ہے کہ گھر سےقمیص ،شلوار،کوٹ وغیرہ پہن کر آتے ہیں اور مسجد میں داخل ہونے کے بعد صرف پگڑی، ٹوپی یا رومال اتار کر نماز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ  مزید لکھتے ہیں کہ ننگے سر عبادت کرنا عیسائیوں کا شعار ہے۔اس لیے ہمیں ان کی مخالفت کا حکم ہے، ہمارےنزدیک اسے معمول بنا لینا پسندیدہ عمل نہیں ہے۔[11]

ان تصریحات کا حاصل یہ ہے جواز کی حد تک ننگے سر نماز ادا کرنے میں نہ کوئی کلام ہے اور نہ قباحت ،لیکن اگر کوئی عمامہ ،ٹوپی یا رومال وغیرہ موجودہوتو اسے استعمال کرنا افضل ہے جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا معمول تھا کیونکہ سر ڈھانپنا بھی زینت کا ایک حصہ ہے۔لہٰذا ننگے سر نماز پڑھنے کو شعار اور معمول نہ بنایا جائے۔ہاں کپڑوں کی موجود گی میں بھی کبھی کبھارکسی ضرورت یا مصلحت کی غرض سے ننگے سر نماز ادا کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہمیں اس سے بھی اختلاف ہے کہ اس سلسلہ میں مسجد میں ٹوپیاں رکھنے کا رواج جاری کیا جائے جن پر سارا سال مکھیاں بھنبھناتی رہتی ہیں اور پھر انہی گندی ،میلی کچیلی اور پھٹی ہوئی ٹوپیوں کو نماز کے لیے استعمال کیا جائے ہمارے نزدیک یہ کام بھی مستحسن نہیں ہے۔ہر نمازی اس کا اہتمام خود کرے۔(واللہ اعلم)


[1] ۔فتح الباری،ص:604۔ج1۔

[2] ۔ صحیح بخاری،الوضو205۔

[3] ۔صحیح مسلم الطہارۃ:633۔

[4] ۔صحیح مسلم الحج:3311۔

[5] ۔مسند امام احمد:ص،263۔ج3۔

[6] ۔مصنف ابن ابی شیہ ،ص:47۔ج1۔

[7] ۔مصنف ابن ابی شیہ ،ص:798۔ج1۔

[8] ۔تمام المنہ ص: 164۔

[9] ۔تمام المنہ ،ص:164۔

[10] ۔صحیح بخاری،الصلوۃ:352۔

[11] ۔اصل صفۃالصلوۃ،ص:166۔ج1۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:75

محدث فتویٰ

تبصرے