سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(37) غسل جنابت کرتے وقت سر کا مسح کرنا

  • 19686
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2574

سوال

(37) غسل جنابت کرتے وقت سر کا مسح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

غسل جنابت کرتے وقت سر کا مسح کرنا چاہیےیا اس کی ضرورت نہیں، قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاہے کہ آپ نے اس طرح وضو کیا جس طرح نماز کے لیے وضو کرتے تھے۔[1]اس حدیث کے عموم کا تقاضا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  غسل جنابت کے دوران وضو کرتے ہوئے سر کا مسح بھی کرتے تھے البتہ پاؤں کے متعلق صراحت ہے کہ آپ فراغت کے بعد دوسری جگہ ہٹ کر وہاں پاؤں دھوتے تھے۔[2]

البتہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی سنن میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔’’غسل جنابت میں وضو کرتے وقت مسح ترک کرنا۔‘‘

پھر انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے غسل جنابت کا بیان ہے۔ اس حدیث میں صراحت سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ سارے جسم پر پانی بہالیا۔[3]

اس حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  غسل جنابت کرتے وقت جو وضو کرتے تھے اس میں مسح نہیں کرتے تھے۔محدثین کرام نے ان احادیث میں تطبیق کی دوصورتیں کی ہیں۔

1۔پہلی حدیث کے عموم سےسر کے مسح کو خاص کر لیا جائے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  غسل جنابت میں نماز جیسا وضو کرتے البتہ اس میں سر کا مسح نہیں کرتے تھے، اس کے بجائے سر پر پانی بہالیتے۔

2۔بیان جواز کے لیے کبھی غسل جنابت میں وضو کرتے ہوئے مسح کر لیتے اور بعض اوقات اسے ترک بھی کر دیتے۔[4]

ہمارے رجحان کے مطابق پہلی توجیہ میں زیادہ وزن معلوم ہوتا ہے کیونکہ جب سرکو دھونا ہے تو مسح کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔پھر راوی نے اس کی صراحت بھی کردی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت سنن نسائی کے حوالے سے بیان ہو چکی ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] ۔بخاری الغسل249۔

[2] ۔بخاری الغسل:257۔

[3] ۔سنن نسائی الغسل:422۔

[4] ۔سنن نسائی مع التعلیقات السلفیہ،ص:47۔ج1۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:63

محدث فتویٰ

تبصرے