السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے قضائے حاجت کے بعد صرف ڈھیلے استعمال کئے پانی سے استنجاء نہیں کیا۔اس کے بعد وضو کر کے جماعت کرادی،کیاشرعاً ایسا کرنا درست ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں فتوی دیں۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ امت کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔امام کو چاہیے کہ وہ اپنے مقتدیوں کے سامنے قطعاًکوئی ایسا کام نہ کرے جس سے ان کے جذبات میں اشتعال پیدا ہو سکتا ہو۔ چونکہ امام مقتدیوں کے لیے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے امام بہترین اخلاق اور مثالی کردار کا حامل ہونا ضروری ہے بلاشبہ قضائے حاجت کے بعد صرف ڈھیلے استعمال کرنے سے طہارت مکمل ہو جاتی ہے ،اگر ایسا کرنےکے بعد باوضو ہو کر نماز پڑھاتا ہے تو اس کی نماز میں کوئی نقص نہیں ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو طہارت کے لیے تین پتھر ساتھ لے جائے۔
فراغت کے بعد انہیں استعمال کرنا طہارت کے لیے کافی ہے۔[1]
تاہم بہتر ہے کہ پانی سے استنجا کیا جائے کیونکہ پانی سے طہارت اور صفائی اچھی طرح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔
’’عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے خاوندوں کو پانی سے استنجا کرنے کی تلقین کریں کیونکہ ایسے معاملات میں مجھے گفتگوکرنے سے شرم آتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے یعنی وہ پانی سے استنجا کرتے تھے۔‘‘[2]
اگر ڈھیلے اورپانی دونوں میسرہوں اور ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی سے استنجا کیا جائے تو بہت بڑی فضلیت ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اہل قباء کی طہارت کے متعلق فضیلت بیان فرمائی ہے۔جب اس کی وجہ دریافت کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ ہم ڈھیلے استعمال کرنےکے بعد پانی استعمال کرتے ہیں بہر حال امام کو چاہیے کہ وہ ایسی باتوں کا خیال رکھے اور مقتدیوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی باتوں کو فتنہ و فساد کا ذریعہ نہ بنائیں ۔اگر مسئلے کا علم نہ ہوتو کسی اہل علم کی طرف رجوع کریں۔(واللہ اعلم)
[1] ۔ابو داؤد ،کتاب الطہارۃ:40۔
[2] نسائی کتاب الطہارۃ:46۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب