سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17) نئی مسجد کی موجودگی میں پہلی مسجد کی جگہ فروخت کرنا

  • 19666
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1304

سوال

(17) نئی مسجد کی موجودگی میں پہلی مسجد کی جگہ فروخت کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم نے اپنی سہولت کے لیے تقریباً4مرلہ پر مشتمل ایک گھر یلو مسجد تعمیر کی۔ کچھ عرصہ بعد اس میں جمعہ اور جماعت کا اہتمام کر دیا گیا۔ پھر آبادی کی ضرورت کے پیش نظر اس کے قریب ایک دوسری مسجد 50مرلہ پر مشتمل تعمیر کی گئی پہلی مسجد میں بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری کرد یا۔جب وہ تعلیم و تدریس کے لیے ناکافی ہوئی تو بڑی مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بنادیا گیا۔اب پہلی مسجد فارغ ہے۔اس کا کیا مصرف ہونا چاہیے ،کیا اسے فروخت کر کے اس کی قیمت کسی دوسری مسجد پر لگائی جا سکتی ہے؟قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مساجد کی کئی ایک اقسام ہیں۔ہر قسم کے متعلق شرعی حکم بھی الگ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے تمام روئے زمین کو مسجد قراردیا گیا ہے۔جہاں کہیں دوران سفر نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لی جائے۔[1]تمام روئے زمین کو حکمی طور پر مسجد قرار دیا گیا ہے، اس کے وہ احکام نہیں ہیں جو عام مساجد کے ہوتے ہیں ، ایک مسجد وہ ہوتی ہےجو گھر کے کسی کونے کو یا زرعی زمین کے کسی خطہ کو سہولت کے پیش نظرمسجد قراردے لیا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے گھر کے ایک کونے کو مسجد قراردیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے گزارش کی تھی کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور وہاں ایک مرتبہ نماز پڑھیں تاکہ اسے مسجد قراردیں۔[2]اس قسم کی مساجد کو گھر یا زمین کا مالک جب چاہے ختم کر سکتا ہے اور اسے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے ۔ تیسری قسم ان مساجد کی ہے،جن میں اذان و جماعت اور جمعہ کا اہتمام ہواور اس کی زمین باقاعدہ وقف ہو۔ صورت مسئولہ میں اسی قسم کی مساجد کا ذکر ہے کہ جب وہ کسی وجہ سے بےآباد ہو جائیں تو ایسی مساجد کے سامان اور جگہ کو کس مصرف میں خرچ کیا جائے ،حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کے متعلق بڑی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مساجد کو بلاوجہ دوسری جگہ منتقل نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں اگر پہلی مسجد بےآباد ہو جائےیا اس سے وہ مقاصد پورے نہ ہو رہے ہوں جو تعمیر مسجد کے پیش نظر ہوتے ہیں تو ایسے حالات میں ایک مسجد کو دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے، اس صورت میں پہلی مسجد کے سازو سامان کو دوسری مسجد میں استعمال کیا جا سکتا ہے نیز بے آباد مسجد کی زمین کو فروخت کر کے اس کی قیمت کسی دوسری مسجد میں خرچ کی جاسکتی ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کوفہ کی ایک پرانی مسجد کو دوسری جگہ منتقل کردیا تھا اور پہلی مسجد کی جگہ کھجور منڈی بنادی تھی۔کیونکہ پہلے بیت المال محفوظ جگہ پر نہیں تھا ، اس کی حفاظت مقصود تھی اور اسے دوسری مسجد کے قبلہ طرف بنایا تاکہ آنے جانے والے نماز اس پر نظر رکھیں۔[3]

مندرجہ بالا تصریحات کی روشنی میں جب کوئی مسجد بے آباد ہو جائے تو اس کے سامان کو دوسری مسجد میں استعمال کیا جا سکتا ہے، نیز اس کی زمین فروخت کر کے اس کی قیمت بھی دوسری مسجد میں صرف کی جا سکتی ہے۔(واللہ اعلم)


[1] ۔صحیح بخاری،تیمم:335۔

[2] ۔صحیح بخاری ،الصلوٰۃ:425۔

[3] ۔مجموع الفتاویٰ ،ص:216۔31۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:49

محدث فتویٰ

تبصرے