سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) مسجد سے متصل حجرہ نما کمرہ امام و خطیب کو دینا

  • 19664
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1677

سوال

(15) مسجد سے متصل حجرہ نما کمرہ امام و خطیب کو دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہماری مسجد سے متصل ایک حجرہ نما کمرہ ہے جو ڈبل سٹوری پر مشتمل ہے جب کہ اس کا اور مسجد کا صحن مشترک ہے باہر سے مسجد ہی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔وہ حجرہ صرف جمعہ کے دن عورتوں کے لیے استعمال ہوتا ہے،اس حجرہ کو مسجد کی آبادکاری کے لیے امام و خطیب کے لیے بطور رہائش استعمال کیا جا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مساجد اللہ کی عبادت،تلاوت قرآن ذکر الٰہی اور نماز کی ادائیگی کے لیے بنائی جاتی ہیں ،لہٰذا ان میں ہر وہ کام جائز ہے جو مذکورہ مقاصد کی ادائیگی میں رکاوٹ کا باعث نہ ہواور ہر وہ کام منع ہے،جو ان کے منافی ہو، اللہ تعالیٰ نے مساجد کو صاف ستھرا،پاک رکھنے کاحکم دیا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیں محلوں میں مساجد بنانے ان کی بناوٹ کی اصلاح کرنے اور انھیں پاکیزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔[1]

مذکورہ بالا امور کے پیش نظر مسجد میں اہل وعیال کے بغیر تنہا رہائش رکھنے میں چنداں حرج نہیں جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا بیان ہے کہ وہ نوجوان ،غیر شادی شدہ تھے اور مسجد میں سوجایا کرتےتھے۔[2]نیز ان کا بیان ہے کہ ہم زمانہ نبوت میں مسجد میں سوتے اور اسی میں قیلولہ کرتے جب کہ ہم نوجوان تھے۔[3]

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی صحیح بخاری میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے،"عورت کا مسجد میں سونا" پھر ایک بے سہاراعورت کے متعلق حدیث پیش کی ہے جس کا خیمہ مسجد میں تھا ۔[4]لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ کسی قسم کے فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو۔ اہل و عیال کے سمیت مسجد میں رہائش رکھنا مسجد کے تقدس کے خلاف ہے لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔البتہ مسجد سے ملحقہ کمرے کے احکام مسجد جیسے نہیں ہیں۔اسے امام و خطیب کی رہائش کے لیےاستعمال کیا جا سکتا ہے،رہائش خواہ سنگل ہو یا اپنے اہل وعیال کے سمیت،اس کے اوپر یا نیچے امام خطیب کی رہائش تعمیر ہو سکتی ہے۔(واللہ اعلم)


[1] ۔ابو داؤد،الصلوٰۃ456۔

[2] ۔صحیح بخاری،الصلوٰۃ:44۔

[3] ۔مسند امام احمد،ص:12،ج2۔

[4] ۔صحیح بخاری،الصلوٰۃ:439۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:47

محدث فتویٰ

تبصرے