السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث میں ہے کہ اگر میرابندہ میری طرف ایک قدم آتا ہے تو میں دوقدم اس کی طرف آتا ہوں،اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑکر آتا ہوں۔ صفات باری تعالیٰ میں حقیقی معنی مراد لینا ہی سلف صالحین کا عقیدہ اور طرز عمل ہے،اس عقیدے کی روشنی میں حدیث مذکورہ کا حقیقی معنی کس تنا ظرمیں لیا جائے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے حدیث میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ میں اپنے بندے سے اس کے گمان کے مطابق برتاؤکرتاہوں۔جب وہ مجھے یا د کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔ اور جب وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں۔اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہو جا تا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آجاتا ہوں۔[1]یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی کئی ایک صفات پر مشتمل ہے اور اللہ کی صفات دو طرح کی ہیں۔ثبوتیہ اور سلبیہ۔
صفات ثبوتیہ:سے مراد وہ صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے لیے ثابت کی ہیں جیسے علم اور قدرت وغیرہ۔
صفات سلبیہ:سے مرادوہ صفات ہیں۔جن کی اللہ تعالیٰ نے خود یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان کی نفی کی ہے جیسے نیند اور تھکاوٹ وغیرہ ۔ پھر صفات ثبوتیہ کی دو اقسام ہیں۔
ذاتیہ اور فعلیہ۔ذاتیہ سے مراد وہ صفات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ متصف رہتا ہے جیسے صفت علواور صفت عظمت وغیرہ۔
فعلیہ سے مراد وہ صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے وابستہ ہیں۔اگر چاہے تو انہیں کرے اور اگر نہ چاہے تو نہ کرے جیسا کہ استواء علی العرش اور نزول الی سماء الدینا ۔
آخری قسم کی صفات کو اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے شایان شان ثابت کیا جائے۔اس میں تمثیل یا تکییف کا شائبہ نہیں ہونا چاہیے۔ حدیث مذکور میں جو صفات ہیں وہ ثبوتیہ فعلیہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق ہیں۔ شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت اور سلف صالحین اس قسم کی نصوص کو ان کے حقیقی اور ظاہری معنی پر ہی محمول کرتے ہیں اور ان صفات کو اللہ رب العزت کے شایان شان ثابت کرتے ہیں ان کے لیے کوئی تمثیل یا کیفیت کو متعین نہیں کرتے ، اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے قریب ہونے کو بیان کیا گیا ہےوہ اپنے بندے کے جب چاہے جس طرح چاہے قریب ہو سکتا ہے، باوجود اس کے وہ بلند و بالا بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا آسمان دنیا کی طرف نزول اور اپنے عرش پر مستوی ہونا ثابت ہے۔[2]
شیخ عبد اللہ غنیمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر جو دوکرم کو بطور تمثیل بیان کیا گیا ہےیعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر بہت جلد متوجہ ہو تا ہے اور اس پر اپنا فضل وکرم کرنے میں جلدی کرتا ہے، باوجودیکہ اس کی عبادت اس کرم و فضل کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی وہ اپنے علاوہ ہر چیز سے بے پرواہے اور اس کے علاوہ ہر چیز اس کی محتاج ہے۔[3]
یہ دونوں بزرگ سر زمین عرب کے نامور علماء میں سے ہیں اور ان کی تمام زندگی درس و تدریس میں گزری ہے ،موخرالزکر تو سعودی عرب میں ہمارے دوران تعلیم مضمون توحید کے استاذتھے۔اللہ تعالیٰ ان پر کروٹ کروٹ اپنی رحمت فرمائے، اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے ہم نے اس حدیث کی وضاحت میں ان کی تشریحات کو ذکر کردیا ہے۔(واللہ اعلم)
[1] ۔صحیح بخاری التوحید:7405۔
[2] ۔القواعدالمثلی،ص:70۔
[3] ۔شرح کتاب التوحید ،صحیح بخاری ،ص:271۔ج1۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب