السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کسی آدمی نے کسی عورت سے شادی کی تو اس سے ایک لڑکا پیداہوا،اور مذکورہ عورت کے والد نے اپنی بیٹی کے مال میں اپنی ذات کے لیے تصرف کرنا چاہا تو اس کے خاوند نے اسے اس سے باز کردیا تو اس نے دعویٰ کیا کہ وہ(عورت) پابندی کے نیچے ہے تو کیا اس سے یہ دعویٰ قبول کیاجائے گا؟جبکہ اس(عورت) سے کبھی کوئی بیوقوفی نہیں ہوئی کہ اس پر پابندی لگائی جائے تو کیا(عورت) کے لیے اسے اپنے مال میں تصرف کرنے سے روکنے کا جواز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کے باپ کے لیے اس عورت کے مال میں اپنی ذات کے لیے تصرف جائز نہیں بلکہ جب وہ اس عورت کے مال میں تصرف کرے گا تو اس سے اس کی اہلیت بھی قابل اعتبار نہیں رہے گی،اور اس کو اس مذکورہ پر حجر وغیرہ کی ولایت سے روک دیا جائے گا۔لیکن اگر وہ ولایت کا اہل ہوتو اس(عورت) کے لیے اس کے حصے کا تصرف کرسکتا ہے اپنے لیے نہیں،اور اس کے لیے اس کا والی بننا بھی درست نہیں۔ہاں،اگر وہ ہمیشہ بیوقوف ہی رہے تو اگر وہ سمجھدار ہوجائے تو اس مرد کے اختیار کے بغیر ہی پابندی ختم ہوجائے گی،اور جب اس کی سمجھداری کی دلیل قائم ہوجائے تو اس کی ا س سے ولایت کے ختم کرنے کا حکم لگایا جائے گا۔اور عورت پر لازم ہوگا کہ وہ قسم دے کہ مذکورہ شخص،جس نے اپنی ولایت کا مطالبہ کیاہے اور اس کی دلیل بھی پیش نہیں کی،اس کی سمجھداری سے آگاہ نہیں ہے۔(شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندي والله اعلم بالصواب