السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مردوں اور عورتوں کے اختلاط کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟وہ اختلاط جو آپس میں دینی مسائل میں مفاہمت اور مناظرے کی صورت میں ہو تا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مردوں اور عورتوں کا اختلاط خطرناک امور میں سے ہے اس سلسلے میں جناب شیخ محمد ابراہیم کا فتویٰ صادر ہوا ہے جس کو ہو بہو نقل کیا جاتا ہے
" مردوں اور عورتوں کے اختلاط کی تین حالتیں ہیں۔
1۔پہلی حالت :کہ عورتوں کا اپنے محرم رشتہ دار مردوں سے اختلاط اس کے جائز ہونے میں کوئی اشکال نہیں۔
2۔دوسری حالت: کہ فساد کی غرض سے عورتوں کا اجنبی مردوں سے اختلاط اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں۔
3۔تیسری حالت :کہ تعلیم گاہوں، دکانوں ،دفتروں ،پارٹیوں اور دیگر جگہوں میں عورتوں کا اختلاط ممکن ہے کہ سائل اس حالت میں بادی النظر میں یہ سمجھا ہو کہ یہ مردوں اور عورتوں میں فتنے کا باعث نہیں ہے اس لیے اس حالت کی حقیقت کو کھولنے کے لیے ہم اجمالی اور تفصیلی دونوں طرح سے جواب دیتے ہیں۔
اجمالی جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو جبلی طور پر عورتوں کی طرف میلان رکھنے والے اور طاقت ور پیدا کیا ہے اور عورتوں کو جبلی طور پر کمزوری اور مردوں کی طرف میلان پر پیدا کیا ہے چنانچہ جب اختلاط ہو گا تو ایسے اثرات ضرور ہوں گے جو برے مقاصد کے حصول کے لیے ہوں گے اس لیے کہ نفس برائی پر آمادہ کرتا ہے اور خواہش انسان کو اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے اور شیطان فحاشی اور برائی کا حکم دیتا ہے۔
تفصیلی جواب یہ ہے کہ شریعت کی بنیاد کچھ مقاصد اور ان کے وسائل پر ہے اور وسائل جو مقصد تک لے جانے والے ہیں وہ بھی مقصد کے حکم میں ہیں چونکہ عورتیں مردوں کی جنسی خواہشات پورا کرنے کی جگہیں ہیں اس لیے شارع نے دونوں قسموں کے تعلق تک پہنچانے والے دروازوں کو بند کر دیا ہے۔
اس کی مزید حقیقت تمھارے سامنے واضح ہو گی اس سے جو ہم کتاب و سنت سے دلائل پیش کریں گے۔
پہلی دلیل:اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَرٰوَدَتهُ الَّتى هُوَ فى بَيتِها عَن نَفسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبوٰبَ وَقالَت هَيتَ لَكَ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبّى أَحسَنَ مَثواىَ إِنَّهُ لا يُفلِحُ الظّـٰلِمونَ ﴿٢٣﴾... سورةيوسف
"اور اس عورت نے جس کے گھر میں وہ تھا اسے اس کے نفس سے پھسلایا اور دروازے اچھی طرح بند کر لیے اور کہنے لگی جلدی آ،اس نے کہا: اللہ کی پناہ بے شک وہ میرا مالک ہے اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایابلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم فلاح نہیں پاتے۔"
وجہ دلالت :جب عزیز مصر کی بیوی اور یوسف علیہ السلام کے درمیان اختلاط ہوا تو جو اس عورت کے دل میں چھپا ہوا تھا وہ ظاہر ہو گیا تو اس نے یوسف علیہ السلام سے گناہ کا مطالبہ کیا لیکن اللہ کی مہربانی ہوئی تو وہ اس سے بچ گیا جیسا کہ اس فرمان میں ہے۔
﴿فَاستَجابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنهُ كَيدَهُنَّ إِنَّهُ هُوَ السَّميعُ العَليمُ ﴿٣٤﴾... سورة يوسف
"تو اس کے رب نے اس کی دعا قبول کر لی پس اس سے ان (عورتوں )کا فریب ہٹا دیا بے شک وہی سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے۔"
ایسے ہی جب مردوں کا عورتوں سے اختلاط ہو گا تو دونوں میں سے ہر ایک چاہے گا ۔کہ وہ اسے ہوائے نفس کی طرف مائل کرے اور پھر وہ اس کے بعد حصول مقصد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائےگا۔
دوسری دلیل :اللہ نے مردوں اور عورتوں کونظریں پست کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُل لِلمُؤمِنينَ يَغُضّوا مِن أَبصـٰرِهِم وَيَحفَظوا فُروجَهُم ذٰلِكَ أَزكىٰ لَهُم إِنَّ اللَّهَ خَبيرٌ بِما يَصنَعونَ ﴿٣٠﴾ وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ...﴿٣١﴾... سورة النور
"مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں اور مومن عورتوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں۔"
وجہ دلالت :دونوں آیتوں میں ایماندار مردوں اور عورتوں کونظر پست رکھنے کا پابند کیا گیا ہے اور اللہ کا حکم وجوب پر دلالت کرتا ہے پھر اللہ نے واضح کیا ہے کہ یہ زیادہ پاکیزہ ہے البتہ شارع نے اچانک پڑ جانے والی نظر سے درگزر کیا ہے۔
امام حاکم نے مستدرک میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا:
" يَا عَلِيُّ لا تُتْبِعْ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ فَإِنَّ لَكَ الأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الآخِرَةُ"[1]
"اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ !نظر کے پیچھے نظر کو نہ لگا پہلی تیرے لیے جائز ہو گی اور دوسری جائز نہیں ہو گی۔"
امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اسے بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی شرط پر صحیح ہے جبکہ بخاری و مسلم نے اسے بیان نہیں کیا امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی "تلخیص"میں اس قول کی موافقت کی ہے اس معنی و مفہوم کی کئی روایات آئی ہیں۔
اللہ نے نظر پست رکھنے کا پابند کیا ہے کیونکہ ایسی عورت کو دیکھنا جسے دیکھنا حرام ہے آنکھوں کا زنا ہے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُتِبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَصِيبُهُ مِنْ الزِّنَا مُدْرِكٌ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ فَالْعَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ وَالْأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الِاسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلَامُ وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَا وَالْقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ وَيُكَذِّبُهُ"[2]
"دونوں آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے اور کانوں کا زنا (گندی فحش باتیں ) سننا ہے زبان کا زنا (فحش) گفتگو ہے ہاتھ کا زنا (ناجائز چیز کا) پکڑناہے اور پاؤں کا زنا (بے حیائی کے اڈوں کی طرف ) چلنا ہے۔"
دیکھنا زنا اس لیے ہے کہ دیکھنے والا عورت کے محاسن سے لطف اٹھاتا ہے اور یہی دیکھنے والے کے دل میں عورت کے گھر کرنے کا ذریعہ بنتا ہے تو وہ اس کے دل سے گڑجاتی ہے لہٰذا وہ اس سے برائی کے ارتکاب کی طرف کوشش کرتا ہے جبکہ شارع نے اس کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے کیونکہ یہ خرابی تک لے جانے والا ہے اور یہی خرابی اختلاط سے حاصل ہوتی ہے تو اسی طرح اختلاط سے بھی منع کردیا کیونکہ وہ بھی نظر کی لذت بلکہ اس سے زیادہ بری چیز اور ناپسندیدہ انجام کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔
تیسری دلیل:گزشتہ دلائل گزر چکے ہیں جو اس بارے میں ہیں کہ عورت پردہ ہے اور اسے اپنا تمام جسم چھپانا ضروری ہوگا کیونکہ عورت کے بدن سے کسی چیز کا ننگا ہو نا اس کی طرف دیکھنے کی دعوت دے گا اور دیکھنا دل سے وابستگی کا ذریعہ ہو گا پھر اسے حاصل کرنے کے لیے ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں اور اختلاط کا بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے۔
چوتھی دلیل:اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
﴿وَلا يَضرِبنَ بِأَرجُلِهِنَّ لِيُعلَمَ ما يُخفينَ مِن زينَتِهِنَّ ...﴿٣١﴾... سورةالنور
"اور اپنے پاؤں (زمین پر) نہ ماریں تاکہ ان کی وہ زینت معلوم ہو جو وہ چھپاتی ہیں۔"
وجہ دلالت:اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو پاؤں زمین پر زور زور سے مارنے سے منع کیا ہے اگرچہ یہ جائز ہے اس لیے کہ یہ (پاؤں مارنا)مردوں کے لیے پازیبوں کی آواز سننے اور اس کی طرف متوجہ ہونے اور پھر مردوں کے دلوں میں ان عورتوں کی طرف شہوت بھڑکانے کا ذریعہ نہ بنے ایسے ہی اختلاط سے بھی روک دیا جائے گا کیونکہ وہ بھی خرابی تک پہچانے کا ذریعہ ہے۔
پانچویں دلیل:اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
﴿يَعلَمُ خائِنَةَ الأَعيُنِ وَما تُخفِى الصُّدورُ ﴿١٩﴾... سورة المؤمن
"وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور اسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں ۔"
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ نے اس کی تفسیر یوں بیان کیا ہے کہ آدمی کسی کے گھر جاتا ہے ان کے ہاں رات گزارتا ہے اب میں ایک خوبصورت عورت ہے وہ اس کے پاس سے گزرتی ہے تو جب وہ غافل ہو تے ہیں تو وہ اس کو کن انکھیوں سے دیکھتا ہے تو جب وہ متوجہ ہوتے ہیں تو اپنی نظر کو پست کر لیتا تو جب وہ غافل ہوتے ہیں تو ملاحظہ کرنے لگ جا تا ہے جب وہ متوجہ ہوتے ہیں نظر کو پست کر لیتا ہے۔
اللہ جانتا ہے کہ اس کے دل کی کیا حالت ہے کہ وہ چاہتا ہے کاش!وہ اس کی شرمگاہ کو دیکھ لے؟کاش! اس کے بس میں ہو تو وہ اس سے زنا بھی کر گزرے؟
وجہ دلالت :اللہ تعالیٰ نے ایسی عورت کی طرف چوری چوری دیکھنے کو جس کا دیکھنا حلال نہیں ہے۔ آنکھوں کی خیانت بتائی تو بھلا اختلاط کا کیا حکم اور معاملہ ہو گا؟
چھٹی دلیل: اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنے گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ ...﴿٣٣﴾... سورةالاحزاب
"اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو۔"
وجہ دلالت : اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو اپنے گھروں میں یہی رہنے کا حکم دیا جو کہ انتہائی زیادہ پاکیزہ اور پاکدامن تھیں اور یہ خطاب عام ہو گا اگر کوئی دلیل اس کو خاص کرنے پر راہنمائی نہ کرتی ہو جبکہ یہاں کوئی ایسی دلیل نہیں جو خصوصیت پر دلالت کرتی ہو تو جب وہ گھروں میں ہی رہنے کی پابند ہیں الایہ کہ کوئی ضرورت ان کے نکلنے کو چاہتی ہو تو گزشتہ صورت میں اختلاط کو کیوں کر جائز کہا جا سکتا ہے؟
حالانکہ اس دور میں عورتوں کی سر کشی بڑھ چکی ہے اور انھوں نے حیا کی چادر کواتاردیا ہے۔ بیگانے مردوں کے سامنے اپنی آرائش اور خوبصورتی کو ظاہر کرنا اور ان کے پاس ننگا ہونے اور ان کے خاوندوں اور ان کے سوا جن کے سپردان کا معاملہ کیا گیا ہے ان کے اندر دینی حمیت و غیرت کی انتہائی قلت پائی جاتی ہے۔
رہے سنت سے دلائل تو ہم دس دلائل کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔
1۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند سے اپنی مسند کے اندر ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی اُم حمید رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں اور عرض کی:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز کو پسند کرتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكِ تُحِبِّينَ الصَّلاةَ مَعِي وَصَلاتُكِ فِي بَيْتِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلاتِكِ فِي حُجْرَتِكِ وَصَلاتُكِ فِي حُجْرَتِكِ خَيْرٌ مِنْ صَلاتِكِ فِي دَارِكِ وَصَلاتُكِ فِي دَارِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلاتِكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ وَصَلاتُكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلاتِكِ فِي مَسْجِدِي"[3]
"میں بخوبی جانتا ہوں کہ تو میرے ساتھ نماز کو پسند کرتی ہے جبکہ تیرے گھر میں تیری نماز تیرے حجرے میں نماز سے بہتر ہے اور تیرے حجرے کی نماز تیرے گھر (کے صحن ) کی نماز سے بہتر ہے اور تیرے گھر (کے صحن ) کی نماز تیری قوم کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے اور تیری قوم کی مسجد میں تیری نماز میری مسجد میں نماز سے بہتر ہے۔"
راوی کہتے ہیں کہ اُم حمید رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حکم دیا تو ان کے لیے ان کے گھروں میں سے آخری اور اندھیرے والے گھر کے اندر مسجد بنادی گئی تو اللہ کی قسم وہ فوت ہونے تک اسی میں نماز پڑھتی رہیں۔
ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔
"إِنَّ أَحَبَّ صَلاَة تُصَلِّيهَا الْمَرأَةُ إِلَى اللهِ فِي أَشَدِّ مَكَانٍ فِي بَيْتِهَا ظُلْمَة"[4]
"اللہ کے ہاں عورت کی سب سے بہتر نماز اس کی انتہائی اندھیرے والی جگہ کی ہے۔"
ان دونوں احادیث کے ہم معنی بہت سی احادیث ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ عورت کی اپنے گھر کی نماز مسجد کی نماز سے بہتر ہے۔
وجہ دلالت : جب عورت کے حق میں مشروع ہے کہ اس کا اپنے گھر میں نماز ادا کرنا حتی کہ مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز ادا کرنے سے بھی بہتر ہے تو اس زمانے میں اختلاط (مردوزن) بدرجہ اولیٰ ممنوع قراردیا جائے گا۔
2۔امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اور ترمذی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہمانے اپنی اپنی سندوں سے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے یوں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُهَا وَشَرُّهَا آخِرُهَا وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ آخِرُهَا وَشَرُّهَا أَوَّلُهَا."[5]
مردوں کی ابتدائی صفیں بہتر اور آخری بری ہیں اور عورتوں کی آخری صفیں اچھی اور ابتدائی بری ہیں۔"
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے۔
وجہ دلالت:یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لیے مسجد میں آنے کی صورت میں مرد نمازیوں سے الگ رہنے کو مشروع قراردیا ہے۔ پھر ان کی ابتدائی صف کو برا اور آخری کو بہتر بیان کیا ہے یہ اسی لیے ہے کہ لیٹ آنے والے مردوں کے اختلاط اور انھیں دیکھنے سے دور رہیں گی اور ان کی حرکات کو دیکھنے سے ان سے دل لگی کے خطرات سے دور رہیں گی۔ان کی ابتدائی صف کی مذمت اس لیے بیان فرمائی کہ یہ مذکورہ مقاصد کے برعکس ہے مردوں کی اسی طرح آخری صف کو براقراردیا جبکہ مسجد میں ان کے ساتھ عورتیں بھی ہوں۔ فضیلت کے رہ جانے امام کے نزدیک نہ ہونے اور دل کو مصروف کرنے والی عورتوں کے قریب ہونے کی وجہ سے ہی ہے اور بسا اوقات وہ اس پر عبادت کو خراب اور زینت اور خشوع میں خلل پیدا کر سکتی ہیں چنانچہ جب شارع نے عبادت کی جگہوں میں اختلاط نہ ہونے کے باوجود ان خطرات کا خدشہ ظاہر فرمایا ہے جہاں عورتیں مردوں سے صرف نزدیک ہوتی ہیں تو اختلاط کی صورت میں کیا حال ہوگا؟
3۔امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا ہے کہتی ہیں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا تھا۔
"إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَلا تَمَسَّ طِيبًا"[6]
"جب تم میں سے کوئی ایک مسجد جائے تو خوشبو نہ لگائے۔"
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اپنی سندوں سے اپنی مسندوں میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لاَ تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ، وَلَكِنْ لِيَخْرُجْنَ وَهُنَّ تَفِلاَتٌ"[7]
"اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجدوں سے مت روکو لیکن انھیں گھر کے کام کاج کے عام لباس میں بغیر زیب و زینت کے نکلنا چاہیے۔"
ابن دقیق العید فرماتے ہیں۔
"اس میں مسجد جانے والی کے لیے خوشبو کی حرمت ہے اور اس لیے کہ اس سے مردوں کی خواہش اور شہوت میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور کبھی یہ عورت کی شہوت کوتحریک دینے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔"
نیز فرماتے ہیں ۔
"خوشبو کے حکم میں اچھا لباس اور زیور پہننا جس کا اثر ظاہر ہو اور بن سنور کر قابل فخر حالت میں جانا بھی شامل ہے۔"
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"اسی طرح مردوں سے اختلاط بھی (ممنوع حکم میں ) داخل ہے۔"
امام خطابی نے"معالم السنن "میں فرمایا کہ"تفل "بدبو ہے کہا جاتا ہے۔امراۃ تفلۃ اگر اس نے خوشبو نہ لگائی ہو اور"نساء تفلات"ایسی عورتیں جو خوشبو سے عاری ہوں۔
4۔اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ" [8]
"میں نے اپنے بعد کوئی فتنہ نہیں چھوڑا جو مردوں پر عورتوں سے زیادہ نقصان دہ ہو۔"اسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ و مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔
وجہ دلالت:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کا وصف یو ں بیان کیا کہ وہ مردوں پر فتنہ ہیں لہٰذا فتنے میں ڈالنے والا اور پڑنے والا کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں؟یہ ناجائز ہے۔
5۔ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ, وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا, فَيَنْظُرُ كَيْفَ تَعْمَلُونَ؟ فَاتَّقُوا الدُّنْيَا, وَاتَّقُوا النِّسَاءَ, فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ, كَانَتْ فِي النِّسَاءِ"[9]
"یقیناً دنیا سر سبز میٹھی ہے اور اللہ تمھیں اس میں خلیفہ بنا کر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ لہٰذا دنیا اور عورتوں سے بچ جاؤ یقیناً بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کے حوالے سے تھا(اسے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے)
وجہ دلالت : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے بچنے کا حکم دیا ہے اور یہ حکم و جوبی ہے اس حکم پر اختلاط کے ہوتے ہوئے پابندی کیسے ہو سکتی ہے ؟یہ ممکن ہی نہیں ۔لہٰذا اختلاط بھی جائز نہیں ہو سکتا۔
6۔امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن اور بخاری نے "الکنی"میں اپنی اپنی سندوں سے بیان کیا ہے کہ حمزہ بن ابو اسید انصاری جو اپنے والد گرامی سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہوئے سنا اور آپ مسجد سے باہر تھے تو رستے میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اسْتَأْخِرْنَ ، فَإِنَّهُ لَيْسَ لَكُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِيقَ ، عَلَيْكُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِيقِ "[10]
"پیچھے ہٹ جاؤ یقیناً تمھارے لیے راستے کے درمیان چلنا جائز نہیں راستے کے کناروں کو لازم پکڑو تو عورت اس قدر دیوار سے مل جاتی کہ اس کا لباس دیوار سے رگڑ کھانے کی وجہ سے دیوار کے ساتھ چمٹ جاتا۔"
یہ الفاظ ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں ابن الاثیر نے "النہایۃ فی غریب الحدیث" میں"تحققن الطریق "کا معنی راستے کے بیچوں بیچ چلنا لکھا ہے۔
وجہ دلالت :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں رستے میں اختلاط کرنے سے منع کیا کیونکہ وہ فتنے تک پہنچانے کا ذریعہ ہے لہٰذا اس کے علاوہ میں اختلاط کے جائز ہونے کے بارے میں بات کیسے کہی جا سکتی ہے؟
7۔امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ طیالسی وغیرہ نے اپنی سنن میں نافع سے بیان کیا ہے اور انھوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسجد تعمیر کرائی تو عورتوں کے لیے الگ دروازہ بنایا اور فرمایا:
" لا يلج من هذا الباب من الرجال أحدا "[11]
"اس دروازے سے کوئی آدمی داخل نہ ہو۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ کبیر میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ذکر کی ہے اور وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لا تدخلوا المسجد من باب النساء".[12]
"عورتوں کے دروازے سے مسجد میں داخل نہ ہوا کرو۔"
وجہ دلالت :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں کے دروازوں سے داخل ہونے اور نکلنے کے بارے میں مردوں اور عورتوں میں اختلاط سے منع کیا ہے تاکہ اختلاط کا سد باب کیا جائے لہٰذا جب اس حالت میں اختلاط سے روکا گیا ہے تو اس کے علاوہ میں تو بالا ولیٰ منع ہو گا۔
8۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا ہے کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز سے سلام پھیرتے تو سلام کے مکمل ہونے کے وقت عورتیں کھڑیں ہو جاتیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ تھوڑی دیر ٹھہرتے اسی کی دوسری روایت میں ہے۔
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لوٹنے سے پہلے عورتیں فارغ ہو کر اپنے گھروں میں داخل ہو جاتیں۔"
تیسری روایت میں ہے۔
"عورتیں جب فرضی نماز سے سلام پھیرتیں تو کھڑی ہو جاتیں اور اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور نماز مرد حضرات جس قدر اللہ چاہتا ٹھہرتے تو جب اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو مرد حضرات پھر کھڑے ہو جاتے ۔"
وجہ دلالت:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالفعل اور عملی طور پر اختلاط سے منع کر دیا اور یہ اس بات پر تنبیہ ہے کہ اس جگہ کے علاوہ بھی اختلاط منع ہے۔
9۔امام طبرانی نے معجم کبیر میں معقل بن یسار سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لَأنْ يُطعَنَ في رأسِ أحدِكم بمِخيَطٍ من حديدٍ خيرٌ لهُ مِنْ أن يَمَسَّ امرأةً لا تَحِلُّ لهُ " .[13]
"البتہ تم میں سے کسی ایک کے سر میں لوہے کی سوئی مار دی جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔"
امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد میں کہا ہے کہ اس کے راوی صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے راوی ہیں اور امام منذری رحمۃ اللہ علیہ نے ترغیب و ترہیب میں اس کے راویوں کو ثقہ کہا ہے۔
10۔امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے ہی ابو امامہ رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث سے بھی بیان کیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لأَنْ يَزْحَمَ رَجُلٌ خِنْزِيراً مُتَلَطِّخاً بِطِينٍ أَوْ حَمْأَةٍ ؛ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَزْحَمَ مَنْكِبِهِ مَنْكِبَ امْرَأَةٍ لا تَحِلُّ لَهُ "[14]
"کوئی آدمی مٹی اور گندگی سے لت پت سور سے ٹکراجائے تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ اس کا کندھاکسی ایسی عورت کے کندھے سے ٹکرائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔"
دونوں حدیثوں سے وجہ دلالت:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر محرم مرد کو پردے یا بغیر پردے کے کسی عورت کے چھونے کو جائز قرارنہیں دیا کیونکہ اس میں برا نتیجہ ہے اور اختلاط بھی اسی علت کی وجہ سے ناجائز قراردیا گیا ہے جو مذکورہ تحریر میں غورو فکر کرے گا تو اس کے لیے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ کہنا کہ اختلاط فتنے تک لے جانے والا نہیں غلط ہے اور صرف کچھ لوگوں کا محض خیال ہے۔
ورنہ درحقیقت یہ فتنے تک پہنچانے والا ہے اسی لیے شارع نے اسے ناجائز کیا صرف خرابی کے مادے کو کاٹتے ہوئے لیکن اس میں وہ استثنائی حالت داخل نہیں ہے جس کی ضرورت اور حاجت شدیدہ متقاضی ہو۔ ایسی صورت عبادگاہوں میں پیش آتی ہے
جیسا کہ حرم مکی اور حرم مدنی میں لہٰذا ہم اللہ سے گمراہ مسلمانوں کی ہدایت اور ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں اضافے اور حکمرانوں کو اچھے کام کرنے اور برے چھوڑنے کی نیز بیوقوفوں کے ہاتھوں کو پکڑنے کی توفیق کا سوال کرتے ہیں انہ سمیع قریب"(سعودی فتوی کمیٹی)
[1] ۔حسن سنن ابی داؤد رقم الحدیث (2149)
[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (2657)
[3] ۔حسن مسند احمد (371/6)
[4] ۔حسن صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ (95/3)
[5] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(440)
[6] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (443)
[7] ۔صحیح سنن ابی داؤد رقم الحدیث (565)
[8] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (4808)صحیح مسلم رقم الحدیث (2740)
[9] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (2742)
[10] ۔حسن صحیح الجامع رقم الحدیث (929)
[11] ۔مسند الطیالسی رقم الحدیث (1829)
[12] ۔ضعیف موقوف سنن ابی داؤد رقم الحدیث (464)
[13] ۔صحیح صحیح الجامع رقم الحدیث (5045)
[14] ۔ضعیف جدا ضعیف الترغیب والترہیب(2/2)
ھذا ما عندي والله اعلم بالصواب