سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(749) غلطی سے ماں کے ہاتھوں بچی کی موت کا کفارہ

  • 19597
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 960

سوال

(749) غلطی سے ماں کے ہاتھوں بچی کی موت کا کفارہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کوئی عورت غلطی اور جہالت کی وجہ سے اپنی چھوٹی بچی کی وفات کا ذریعہ بن جائے تو کیا اس پر کفارہ ہوگا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس عورت نے جس نے اپنی چھوٹی بچی کو بیرل(ڈرم) پر رکھ دیا تو کوئی شبہ نہیں کہ اس نے غلطی ہی کی ہے اور یہ ایک غلط اور ناروا تصرف ہے جو اس سے سرزد ہوا کیونکہ اس طرح کی بچی کو بیرل پر لٹانا ممکن نہیں۔ہاں،اگر کوئی آدمی موجود ہو جو اسے روکے رکھے،اس لیے کہ عام طور پر اس جیسی بچی کھیلتی ہے،ہاتھ پاؤں الٹ پلٹ کرتی ہے اور بیرل سے اس کا گرنا بہت ممکن اور قرین قیاس ہے،لہذا اُس عورت پر اپنی کارستانی پر توبہ کرنا اور کفارہ ادا کرنا جو غلام آزاد کرنے کی صورت میں ہوگا،واجب ہے ۔اور اگر وہ نہیں پاتی تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے،اور اگر اس کی بھی طاق نہ رکھے تو پھر کچھ بھی واجب نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قتل کے کفارے میں فرمایا ہے:

﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ أَن يَقتُلَ مُؤمِنًا إِلّا خَطَـًٔا وَمَن قَتَلَ مُؤمِنًا خَطَـًٔا فَتَحريرُ رَقَبَةٍ مُؤمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ إِلّا أَن يَصَّدَّقوا فَإِن كانَ مِن قَومٍ عَدُوٍّ لَكُم وَهُوَ مُؤمِنٌ فَتَحريرُ رَقَبَةٍ مُؤمِنَةٍ وَإِن كانَ مِن قَومٍ بَينَكُم وَبَينَهُم ميثـٰقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ وَتَحريرُ رَقَبَةٍ مُؤمِنَةٍ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ شَهرَينِ مُتَتابِعَينِ تَوبَةً مِنَ اللَّهِ وَكانَ اللَّهُ عَليمًا حَكيمًا ﴿٩٢﴾... سورة النساء

"کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کر دینا زیبا نہیں مگر غلطی سے ہو جائے (تو اور بات ہے)، جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے، اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وه لوگ بطور صدقہ معاف کر دیں اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وه مسلمان، تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے۔ اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیماں ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی (ضروری ہے)، پس جو نہ پائے اس کے ذمے دو مہینے کے لگاتار روزے ہیں، اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لئےاور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والا اور حکمت والاہے"(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین  رحمۃ اللہ علیہ  )

ھذا ما عندي والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 663

محدث فتویٰ

تبصرے