سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(652) عورت کے اپنے منگیتر کو بے پردگی کی حالت میں کوئی مشروب پیش کرنے والی حدیث پر تبصرہ

  • 19500
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 795

سوال

(652) عورت کے اپنے منگیتر کو بے پردگی کی حالت میں کوئی مشروب پیش کرنے والی حدیث پر تبصرہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس دلہن والی حدیث،جس نے اپنے منگیتر کو ننگے چہرے کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کی موجودگی میں کوئی مشروب پیش کیا تھا،کے بارے میں آپ کا کیا جواب ہے؟یہ بھی جانتے ہوئے کہ وہ حدیث صحیح مسلم میں ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ اور اس جیسی حدیث جن کا ظاہری مفہو م یہ ہےکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین    کی عورتیں اپنے چہروں کو کھلا رکھتی تھیں ان کو پردے سے پہلے پر محمول کیا جائے گا،اس لیے کہ عورت کے لیے پردے کے وجوب پر راہنمائی کرنے والی آیات بعد والی اور چھ ہجری کی ہیں،اور اس سے پہلے عورتوں کے ذمہ اپنا چہرہ اور ہاتھ چھپانا ضروری نہیں تھا،لہذا ہر قسم کی نصوص کو امکانی صورت میں اسی پر محمول کیاجائے گا لیکن کچھ ایسی احادیث بھی آتی ہیں جو پردے سے بعد میں ہونے پر دلالت کرتی ہیں تو یہ جواب کی ضرورت مند ہیں،مثلاً:خشعم قبیلے کی عورت والی حدیث جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے پوچھنے آئی جبکہ فضیل بن عباس حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے پیچھے سوار تھے تو فضل اس عورت کی طرف اور وہ عورت ان کی  طرف دیکھنا  شروع ہوگئی جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے چہرے کو دوسری جانب پھیرتے رہے،کچھ لوگ اس سےیہ دلیل لیتے ہیں کہ عورت کے لیے اپنا چہرہ ننگا رکھناجائز ہے جبکہ یقینی طور پر یہ ان متشابہ احادیث سے ہے جن میں جائز اور ناجائز ہونے کی گنجائش موجود ہے۔

جوازی گنجائش تو ظاہر ہے جبکہ عدم جواز کی گنجائش ایسے ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ عورت ہی محرم تھی اور احرام کی حالت میں شرعی مسئلہ یہی ہے کہ اس کا چہرہ ننگاہونا چاہیے۔اور ہم تو نہیں سمجھتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   اور فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے علاوہ کسی بھی آدمی نے اس کی طرف دیکھا ہو اور فضل بن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے(اس حالت پر) برقرار نہیں رکھا بلکہ آپ اس کے چہرے کو پھیرتے رہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے بارے میں خصوصاً حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ   نے بیان کیا ہے کہ آپ کے لیے عورت کو دیکھنا اور اس سے تنہائی کرنا جائز ہے،جیسا کہ آپ کے لیے بغیر مہر وولی کے عورت سے شادی کرنا جائز تھا،نیز چار عورتوں سے زائد کے ساتھ بھی،اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے ان امور میں کچھ گنجائش رکھی ہوئی تھی کیونکہ آپ پاکدامنی میں کامل تھے۔اور یہ بھی ممکن نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   پر کوئی اعتراض کیا جائے جو کہ غیر  مناسب شبہ پر مبنی ہو جبکہ دیگر لوگوں پر ممکن ہے جو ایک جوانمردی والے کے حق میں ہو۔

اس پر اہل علم کے نزدیک قاعدہ ہے کہ جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہوجاتاہے،لہذا یہ حدیث متشابہ ہے اور متشابہ احادیث کے بارے میں ہی یہ فریضہ ہے کہ انھیں ایسی محکم نصوص کی طرف لوٹایا جائے جو عورت کے اپنا چہرہ کھلارکھنے کے ناجائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔درحقیقت عورت کااپنا چہرہ ننگاکرنا برائی اور فتنے کی علامتوں میں سے ہے۔

اور ان شہروں کامعاملہ بھی ظاہر ہے جن میں عورتوں کو چہرے ننگے  رکھنے کی گنجائش دی گئی ہے تو کیا اس قسم کی عورتیں صرف چہرہ ننگا رکھنے پر اکتفا کرسکتی ہیں،جنھیں چہرہ ننگا رکھنے کی گنجائش دی گئی ہے؟

نہیں بلکہ بسا اوقات تو چہرہ ،سر ،گردن،سینہ،بازو،پنڈلی کو بھی ننگا کیا جاسکتا ہے اور وہ تو اپنی عورتوں کو ان سے بھی باز نہیں رکھ سکیں گے جنھیں وہ خود بھی برا اور حرام سمجھتے ہیں۔اور جب لوگوں کے لیے برائی کادروازہ کھول دیاجاتاہے تو آپ سمجھ لیں کہ اگر آپ د روازے کا ایک تختہ کھولیں گے تو جلد ہی بہت سے تختے کھل جائیں گے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 582

محدث فتویٰ

تبصرے