سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(647) آنکھوں میں بیوی کا دودھ ڈالنے اور دوران مباشرت بیوی کا دودھ پینے کا حکم

  • 19495
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1373

سوال

(647) آنکھوں میں بیوی کا دودھ ڈالنے اور دوران مباشرت بیوی کا دودھ پینے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی کو آشوب چشم کی بیماری تھی سو اس نے اپنی بیوی کے دودھ سے آنکھوں کو دھویا کیا اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی جب اس کا دودھ کسی طرح اس کے پیٹ میں جائے ؟اور ایک آدمی اپنی بیوی سے پیار کرتے ہوئے کھیل کود کرتا ہے اور اس کا دودھ پی لیتا ہے کیا اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اپنی بیوی کے دودھ سے آنکھیں دھونا جائز نہیں ہے البتہ ایسا کرنے سے آدمی پر اس کی بیوی دووجہوں سے حرام نہیں ہوجاتی ۔

1۔پہلی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے والا بڑی عمر کا ہے اور بڑی عمر کا آدمی اپنی عورت یا کسی اور عورت کا دودھ بھی پی لے تو آئمہ اربعہ اور جمہور علماء کے نزدیک اس سے حرمت رضاعت   ثابت نہیں ہوتی ہے اور کتاب و سنت بھی اس بات پر شاہد ہیں رہی سالم مولیٰ ابی حذیفہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے قصے میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا    کی حدیث تو جمہور کے نزدیک یہ صرف انھی کے ساتھ خاص ہے کیونکہ انھوں نے منہ بولا بیٹا بنانے کے حرام ہونے سے پہلے اس کو متبنی بنا رکھا تھا۔

2۔دوسری وجہ یہ ہے کہ آنکھ میں دودھ ڈالنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی اور میں نہیں جانتا کہ کسی نے اس میں اختلاف کیا ہو لیکن علماء نے"سعوط"میں اختلاف کیا ہے اور "سعوط"کا مطلب ہے ناک کے ذریعے کسی چیز کو داخل کرنا جیسا کہ علماء کا "وجور"میں بھی اختلاف ہے اور"وجور"کا مطلب ہے کہ رضاعت کے معروف طریقے کے علاوہ کسی طرح سے جسم میں کوئی دودھ داخل کرنا اکثر علماء اس کے قائل ہیں کہ اس سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   سے مروی دو روایتوں میں سے سعوط کے ذریعے بھی حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے اور یہی مذہب ہے امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ   کا اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ   کے اس مسئلے میں دو قول ہیں جبکہ مذکورہ سوال کے دوسرے حصے کا جواب یہ ہے کہ آئمہ اربعہ کے مذہب میں مذکورہ آدمی کا اپنی بیوی سے دودھ پینا اس کی بیوی کو اس پر حرام نہیں کرتا ہے۔(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 576

محدث فتویٰ

تبصرے