سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(639) دو بہنوں کے ایک دوسرے کے بچوں کو دودھ پلانا

  • 19487
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 748

سوال

(639) دو بہنوں کے ایک دوسرے کے بچوں کو دودھ پلانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دو بہنیں ہیں اور دونوں کے ہی بیٹے اور بیٹیاں ہیں جب دونوں نے ایک دوسرے کی بیٹیوں کو دودھ پلایا ہو تو کیا ان کی بیٹیاں ان کے بیٹوں کے لیے حرام ہو جائیں گی یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب عورت نے لڑکی کو دوسال کی مدت کے اندر پانچ رضعات دودھ پلایا تو یہ لڑکی اس عورت کی رضاعی بیٹی بن جائے گی اور دودھ پلانے والی کے تمام لڑکے دودھ پینے والوں کے خواہ وہ مذکر ہوں یا مونث اور رضاعت سے پہلے پیدا ہوئے یا بعد میں رضاعی بھائی بن جائیں گے۔ لہٰذا دودھ پلانے والی کے کسی لڑکے کو دودھ پینے والی سے شادی کرنا جائز نہ ہو گا لیکن دودھ پینے والی کی ان بہنوں کے لیے دودھ پلانے والی کے لڑکوں سے شادی کرنا جائز ہوگا جبکہ انھوں نے دودھ نہ پیا ہو۔پس اس کی اس بہن کو اس لڑکے سے شادی کرنا جائز ہوگاجس نے اس کی ماں سے دودھ نہیں پیا۔اور اس لڑکی نے اس لڑکے کی ماں سے دودھ نہیں پیا۔ رہی یہ دودھ پینے والی تو یہ اس کو دودھ پلانے والی کے کسی لڑکے سے شادی نہیں کر سکتی ۔ اس پر آئمہ کا اتفاق ہے۔

اس مسئلے میں اصل یہ ہے کہ بلا شبہ دودھ پلانے والی دودھ پینے والی کی رضاعی ماں بن جاتی ہے لہٰذا پینے والی پر پلانے والی کے لڑکے حرام ہو جاتے ہیں کیونکہ پلانے والی کے بھائی پینے والی کے ماموں اور اس کی بہنیں اس کی خلائیں بن جاتی ہیں اور جس آدمی کا دودھ ہوتا ہے وہ اس کا رضاعی باپ بن جا تا ہے اور اس آدمی کے اس عورت سے اور دوسری عورتوں سے پیدا ہونے والے لڑکے اس لڑکی کے رضاعی بھائی بن جاتے ہیں اور آدمی کے بھائی اس لڑکی کے چچا اور اس کی بہنیں اس کی پھوپھیاں بن جاتی ہیں اور دودھ پینے والا اس کے لڑکے اور اس کے لڑکوں کے لڑکے دودھ پلانے والی کے اور اس آدمی کے جس کی وطی کے نتیجہ میں دودھ پیدا ہوا ہے رضاعی بیٹے بن جاتے ہیں۔

رہے دودھ پینے والے کے بھائی اور بہنیں اس کا نسبی باپ اور ماں وہ اجنبی ہیں ان پر اس رضاعت کی وجہ سے کچھ حرام نہیں ہوتا اور اس پر تمام آئمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔ اگرچہ اس کے علاوہ دیگر مسائل میں ان کا اختلاف ہے۔(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 571

محدث فتویٰ

تبصرے