سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(627) سن یا س کو پہنچنے والی عورت کے دودھ کا حکم

  • 19475
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 928

سوال

(627) سن یا س کو پہنچنے والی عورت کے دودھ کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس عورت کے دودھ کاکیا حکم ہے جو سن یاس کو پہنچ چکی ہے،جب وہ کسی بچے کو دودھ پلانا چاہے تو اس کو پانچ رضعات یا اس سے زیادہ دو سال کے اندر پلائے تو کیا یہ دودھ حرمت کا سبب بنے گا؟اور اس کا رضاعی باپ کون ہوگا؟کیونکہ ممکن ہے کہ دودھ  پلانے والی بلاخاوند کے ہو۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ رضاعت سے حرمت  ثابت ہوتی ہے اس سے اتنے ہی رشتے حرام ہوتے ہیں جتنے نسب سےحرام ہوتے ہیں۔بلاشبہ جس رضاعت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ دوسال کے اندر پانچ رضعات ہے تو اس بنا پر دودھ پلانے والی دودھ پینے والے کی رضاعی ماں ہوگی  اللہ تعالیٰ کے عمومی فرمان کی وجہ سے:

﴿وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَرضَعنَكُم...﴿٢٣﴾... سورةالنساء

"اور تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہو۔"

اگرچہ اس عورت کو یہ دودھ سن یاس کو پہنچنے کے بعد اترا ہو۔پھر اگر وہ عورت خاوند والی ہے تو دودھ پینے والابچہ اس عورت کا بیٹا ہوگا اور اس شخص کا بھی بیٹا ہوگا جس کی طرف اس عورت کے دودھ کی نسبت  کی گئی ہے۔اور اگر وہ عورت خاوند والی نہیں ہے اس طرح کہ اس نے شادی نہیں کی ،پھر اسے دودھ اتر آیا ہوتو وہ اس لڑکے کی،جس کواس نے دودھ پلایا ہے،ماں ہوگی اور اس لڑکے کا رضاعی باپ کوئی نہیں ہوگا۔

آپ اس بات پر حیران مت ہوں کہ کسی بچے کی رضاعی ماں تو ہو اور اس کا رضاعی باپ نہ ہو،نیز آپ اس امر پر بھی حیران نہ ہوں کہ اس کا رضاعی باپ تو ہو مگر رضاعی ماں نہ ہو۔

پہلی صورت میں فرض کرو کہ ایک عورت نے اس بچے کو دورضعات ایسے دودھ سے پلایا جو اس کو خاوند  کی وجہ سے پیدا ہوا،پھر اس کے خاوند نے اس کو اپنے دے جدا کردیا،اور اس عورت نے عدت پوری ہونے پر ایک اور خاوند سے شادی کرلی اور وہ اس سے حاملہ ہوئی اور ایک بچے کو جنم دیا اور اس نے پہلے بچے کو باقی کی تین رضعات سے دودھ پلایا تو یہ عورت اس کی رضاعی ماں بن گئی کیونکہ اس نے اس سے پانچ رضعات دودھ پی لیا ہے مگر اس کا کوئی بھی رضاعی باپ نہیں بناکیونکہ اس عورت نے ایک مرد کے دودھ سے پانچ یا زیادہ رضعات دودھ نہیں پلایا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ  بچے کا رضاعی باپ تو پایا جائے مگر اس کی رضاعی  ماں نہ ہو،مثلاً :ایک آدمی کی دو بیویاں ہوں،ان میں سے ایک نے اس بچے کو دو رضعات دودھ پلایا اور دوسری بیوی نے باقی کے تین رضعات دودھ پلایا تو اس صورت میں یہ لڑکا خاوند کا رضاعی بیٹا ہوگا کیونکہ اس نے اس مرد کی طرف منسوب دودھ کے پانچ رضعات پیے مگر اس کی رضاعی ماں نہیں ہوگی  کیونکہ اس نے پہلی عورت سے دو اور دوسری عورت سے تین رضعات دودھ  پیا۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین  رحمۃ اللہ علیہ  )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 559

محدث فتویٰ

تبصرے