السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص ایک عورت سے شادی کرنا چاہتاہے جس کے باپ نے نکاح کا پیغام دینے والے کے باپ کی بیوی کا دودھ پیا ہے تو اس کا اس لڑکی سے شادی کرناجائز ہے؟جبکہ دودھ پلانے والی عورت کہتی ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں نے مرد کو کتنا دودھ پلایا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لڑکی کا باپ پیغام نکاح دینے والے کاعلاتی بھائی ہے تو اس طرح جس لڑکی کو پیغام نکاح دیا گیا ہے وہ پیغام دینے والے کے رضاعی بھائی کی بیٹی ہوئی،اور پیغام دینے والا مخطوبہ کاچچا ہوا۔
رہا اس عورت کا قول جس نے دودھ پلایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں نے اس آدمی کو کتنی بار دودھ پلایا،یہ رضاعت کے حکم کو زائل کردیتا ہے کیونکہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث ہے:
"قرآن مجید میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں دس معلوم رضعات والی آیت بھی تھی جن سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی تھی،پھر ان کوپانچ معلوم رضعات سے منسوخ کردیاگیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اوررضعات کا حکم اسی(پانچ رضعات)پر باقی رہا۔"[1]
اور جب رضعات کی تعداد میں اختلاف ہوجائے تو حرمت رضاعت کا حکم ثابت نہیں ہوتا کیونکہ پانچ رضعات کا معلوم ومتحقق ہونا ضروری ہے۔
جبکہ ورع اور احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ سائل اس لڑکی سے شادی کا خیال ترک کر دے اور کسی اور کو پیغام نکاح دے لے لیکن وہ لڑکی اس سائل کے لیے حرام نہیں ہوگی کیونکہ حرمت پیدا کرنے والی رضاعت کاثبوت نہیں ہے۔اور اگر وہ اس لڑکی سے نکاح کااقدام کرلے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ عمومی طور پر رضاعت کا ثبوت نہیں ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(1452)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب