سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(611) بغیر عذر کے نسل کشی کرنے کا حکم اور ان ضرورتوں کا بیان جن کی وجہ سے نسل کشی جائز ہے

  • 19459
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 603

سوال

(611) بغیر عذر کے نسل کشی کرنے کا حکم اور ان ضرورتوں کا بیان جن کی وجہ سے نسل کشی جائز ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک بھائی بغیر کسی عذر کے قطع نسل کے حکم کے متعلق سوال کرتاہے نیز وہ کون سے عذر ہیں جن کی وجہ سے قطع نسل جائز ومباح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی نس بندی کہ جس کے بعد اولاد کا بالکل امکان نہ رہے  علمائے کرام  رحمۃ اللہ علیہ   کی صراحت کے مطابق حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   اپنی امت سے جس کثرت اولاد کی توقع رکھتے ہیں یہ اسکے خلاف ہے نیز اس لیے بھی کہ اس میں مسلمانوں کی ذلت کے اسباب ہیں کیونکہ مسلمان جتنے زیادہ ہوں گے اتنے ہی وہ عزت دار اور بلند ہوں گے ،اسی لیے اللہ عزوجل نے بنی اسرائیل کو کثرت عطا فرما کر ان پر اس کا احسان جتلایا۔چنانچہ فرمایا:

﴿وَجَعَلنـٰكُم أَكثَرَ نَفيرًا ﴿٦﴾... سورةالإسراء

"اور تمھیں تعداد میں زیادہ کردیا۔"

اور شعیب  علیہ السلام   نے اپنی قوم کو بطور احسان یہ کثرت یاددلائی اورفرمایا:

﴿ وَاذكُروا إِذ كُنتُم قَليلًا فَكَثَّرَكُم ...﴿٨٦﴾...سورة الاعراف

"اور یاد کرو جب تم بہت کم تھے تو اس نے تمھیں زیادہ کردیا۔"

اور حقیقت واقعی اس بات پر شاہد ہے کہ بلاشبہ امت جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی وہ غیروں سے مستغنی وبے پروا ہوگی،اور ان کا اپنے دشمنوں کے مقابلے میں رعب ودبدبہ ہوگا،لہذا انسان کو جائز نہیں ہے کہ وہ قطعی طور پر نس بندی کروادے،الا یہ کہ اس کی کوئی انتہائی ضرورت ہو،مثلاً ڈر ہو کہ عورت جب حاملہ ہوگی تو اس کی موت واقع ہوجائے گی تو ایسی صورت میں ضرورت کے تحت کوئی حرج نہیں کہ وہ اس عورت کے لیے مانع حمل کوئی طریقہ اختیار کرے،یہ وہ  عذر ہے جس کی وجہ سے نسل کشی مباح ہے۔ایسے ہی اگر عورت کے رحم میں کوئی ایسا مرض ہو جس کے متعلق خدشہ ہے کہ وہ مرض باقی جسم میں سرایت کر کے اس کوہلاک کردے گا تو اس کو مجبوراً ر حم نکلوانا پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین  رحمۃ اللہ علیہ  )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 540

محدث فتویٰ

تبصرے