سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(610) لڑکی کی تعلیم اور تدریس کا عذر پیش کرکے مناسب رشتے سے انکار کرنا

  • 19458
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 648

سوال

(610) لڑکی کی تعلیم اور تدریس کا عذر پیش کرکے مناسب رشتے سے انکار کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ایک رواج چلتاہے وہ یہ کہ لڑکی کا یا اس کے والد کا اس سے شاد ی کرنے کا انکار کردینا جو اس کو نکاح کا پیغام دے۔ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ لڑکی اپنی ثانوی یا جامعی تعلیم مکمل کرلے یا تاکہ وہ چند سال تدریس کرلے۔اس کا کیا حکم ہے؟اور جو ایسا کرتا ہے آپ اس کو کیا نصیحت فرماتے ہیں؟حتیٰ کہ اس کے نتیجے میں بعض لڑکیاں تیس یا اس سے زیادہ سال تک بغیر شادی کے پڑی رہتی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کا حکم یہ ہے کہ بلاشبہ یہ کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے حکم کے خلاف ہےکیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"إذا أتاكم من ترضون دينه وأمانته فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد كبير"[1] 

"تمھارے پاس ایسا شخص شادی کے لیے آئے جس کی دین داری اور خوش اخلاقی کو تم پسند کرتے ہوتو اس سے شادی کردو۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ برپا ہو گا اور بڑا فساد کھڑا ہو گا۔"(اس جو ترمذی نے بیان کیاہے)

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرجِ،"[2]

"اے نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے گھر بسانے کی طاقت رکھتا ہے وہ شادی کرے،پس بلاشبہ شادی نگاہ کو نیچا کرتی ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہے۔"(اس کو بخاری رحمۃ اللہ علیہ   نے روایت کیا ہے)

اور شادی سے رکنے سے شادی کی مصلحتیں فوت ہوجاتی ہے،لہذا میں عورتوں کے مسلمان اولیاء اور اپنی مسلمان بہنوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس تعلیم وتدریس کی تکمیل کی وجہ سے شادی کرنے سے نہ رکیں جبکہ ایسے بھی تو ہوسکتا ہے کہ عورت اپنے خاوند سے شرط لگا لے کہ وہ پڑھائی مکمل کرنے تک تعلیم حاصل کرے گی،اور ایسے ہی یہ شرط لگا سکتی ہے کہ ایک سال یا دو سال،جب تک وہ اولاد کے ساتھ مصروف نہیں ہوتی،تدریس کرے گی۔

میرےخیال کےمطابق جب عورت ابتدائی درجہ کی تعلیم مکمل کرلے اور اس کو لکھنا پڑھنا آجائے اس طرح کہ وہ اس تعلیم کے ذریعے کتاب اللہ اور اس کی تفسیر،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کی احادیث اور ان کی شرح کو پڑھ کر استفادہ کرسکے تو بس اتنی سی تعلیم اس کوکافی ہے،الا یہ کہ وہ ایسے علوم حاصل کرے جس کا حصول لوگوں کے لیے ضروری ہے ،جیسا کہ علم طب اور اس  جیسے دیگر علوم لیکن شرط یہ ہے کہ اس قسم کے علوم حاصل کرنے میں اختلاط وغیرہ کا کوئی شرعی مانع نہ ہو۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین  رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔حسن سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (1967)

[2] ۔صحیح البخاری  رقم الحدیث(1806) صحیح مسلم رقم الحدیث(1400)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 539

محدث فتویٰ

تبصرے