سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(485) مطلقہ عورت سے خاوند کا اپنے بچوں کا مطالبہ کرنا

  • 1943
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1474

سوال

(485) مطلقہ عورت سے خاوند کا اپنے بچوں کا مطالبہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت کو طلاق بتہ یعنی تین شرعی طلاقیں ہو جاتی ہیں اور وہ اپنے ساتھ اپنے دونوں بچے بھی لے جاتی ہے جو اس کے طلاق دینے والے خاوند کے بستر پر پیدا ہوئے تھے اب جب خاوند نے عدالت میں بچوں کا مطالبہ کیا تو عورت نے تحریراً یہ کہہ دیا کہ یہ شخص حرامی بچوں کا باپ یعنی یہ بچے اس کے نہیں ہیں کیا شریعت اس عورت کو خاوند سے ان بچوں کا خرچہ دلوائے گی یا نہیں اگر خاوند بھی اس عورت کے اعتراف کی وجہ سے یہ کہہ دے کہ چلو اگر یہ کہتی ہے کہ بچے میرے نہیں تو میں بھی دستبردار ہوتا ہوں۔ اس صورت میں عورت خرچہ مانگنے کی مجاز ہے یا نہیں۔ اس سلسلے میں دو حدیثیں بظاہر مجھے متضاد نظر آتی ہیں۔ ایک تطبیق اور صحیح مسئلہ سے روشناس فرمادیں؟

(1) «اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ»مشكوة-كتاب النكاح-باب اللعان

’’اولاد بستر والے کے لیے اور زانی کے لیے پتھر‘‘

(2) لعان والی حدیث وہاں یہ لفظ ہیں :«وَاَلْحَقَ الْوَلَدَ بِاُمِّه»متفق عليه-مشكوة باب اللعان-الفصل الاول ’’اور اولاد کو  ماں کے ساتھ ملایا‘‘؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

«اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ» عام ہے ولد ملاعنہ کو بھی شامل ہے لیکن دوسری حدیث خاص«وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِأُمِّه» کے ساتھ اس عام کی تخصیص ہو گئی ہے اور اصول ہے« وَالْخَاصُ لاَ يُعَارِضُ الْعَامَ بَلْ يُبْنَی الْعَامُ عَلَی الْخَاص» ’’خاص عام کے معارض نہیں ہوتا بلکہ عام کی بنیاد خاص پر ہوتی ہے‘‘جو واقعہ آپ نے ذکر کیا ہے وہ لعان والی صورت ہے ہی نہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

طلاق کے مسائل ج1ص 334

محدث فتویٰ

تبصرے