سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(560) عورت کا مذکورہ اسباب کی وجہ سے طلاق کا مطالبہ کرنا

  • 19408
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 620

سوال

(560) عورت کا مذکورہ اسباب کی وجہ سے طلاق کا مطالبہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب مرد وعورت کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا محال ہوتو درج ذیل اسباب کی وجہ سے طلاق کا مطالبہ کرنا ازروئے شریعت کیسا ہے؟

پہلی بات یہ کہ میرا خاوند جاہل ہے اورمیرے حق کو نہیں پہچانتا مجھے اور میرے والدین  پر لعنت کرتا تھا اور مجھے یہودیہ،نصرانیہ اور رافضیہ کہتا تھا مگر میں اپنے بچوں کی خاطر اس کے اخلاق قبیحہ پر صبر کرتی لیکن جب میں جوڑوں کے درد اور سوزش کے مرض میں مبتلا ہوئی تو میں صبر کرنے سے عاجز آگئی اور لاچار ہوگئی اور اس سے سخت نفرت کرنے لگی حتیٰ کہ میں اس سے گفتگو کرنے کی طاقت نہیں پاتی۔میں نے اس سے طلاق کا مطالبہ کیا مگر اس نے طلاق دینے سے انکار کردیا۔واضح ہوکہ میں تقریباً چھ سالوں سے اس کے گھر اپنی اولاد کے پاس ہوں اورمیں اس کے پاس ایک مطلقہ اور اجنبیہ کی طرح ہوں لیکن وہ طلاق دینے سے انکار کرتا ہے۔میں جناب سے گزارش کرتی ہوں کہ میرے سوال کا جواب دیں،اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب خاوند کی یہ حالت ہے جو تم نے بیان کی ہے تو ایسی حالت میں طلاق کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،اور فدیہ دے کر خلع لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اس کو مال دوتا کہ وہ اپنی بدسلوکی اور بری باتوں کے ذریعے جو تم پر زیادتیاں کررہاہے ان کے پیش نظر وہ تم کوطلاق دےدے۔اور ا گر تمھیں اس کی تکلیفوں کے مقابلے میں صبر کرنا اچھے اسلوب میں اس کو نصیحت کرنا،اس کے لیے بچوں کی خاطر اور اپنے اور اپنے بچوں کے نان  ونفقہ کی خاطر اس کی ہدایت کی دعا کرنا مناسب محسوس ہوتو اس میں تمہارے لیے اجروثواب اور اچھے انجام کی توقع ہے۔

اور ہم اللہ سے اس کی ہدایت اور استقامت کی دعا  کرتے ہیں۔یہ ساری باتیں اس (شرط پر) ہیں جب وہ نماز ادا کرتا ہو اور دین کو برا نہ کہتا ہو لیکن اگر وہ بے نیازی ہے،یا دین کو برا بھلا کہتا ہے تو وہ کافر ہے تمہارا اس کی زوجیت میں رہنا اور اس کو اپنے پاس آنے دینا جائز نہیں ہے کیونکہ دین اسلام کوگالی دینا اور اس کا مذاق اڑانا کفر اور گمراہی،اور اہل علم کے اجماع کے ساتھ اسلام سے مرتد ہونا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿قُل أَبِاللَّهِ وَءايـٰتِهِ وَرَسولِهِ كُنتُم تَستَهزِءونَ ﴿٦٥ لا تَعتَذِروا قَد كَفَرتُم بَعدَ إيمـٰنِكُم ...﴿٦٦﴾... سورةالتوبة

"کہہ دے:کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کررہے تھے؟بہانے مت بناؤبے شک تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا۔"

علماء نے دو قولوں میں سے زیادہ صحیح قول یہ ہے  کہ بلاشبہ نماز کا ترک کرنا کفر اکبر ہے اگرچہ ترک کرنے والا نماز کے وجوب کا انکاری نہ ہو کیونکہ صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی روایت ثابت ہے ،وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ"[1]

"بندے اور کفروشرک کے درمیان فرق نماز کا  ترک کرنا ہے۔"

نیز امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   اور اصحاب سنن سے صحیح سند کے ساتھ بریدہ بن حصیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے بیان کیاگیا ہے ،وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

" العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر "[2]

"ہمارے اور ان کے درمیان فرق نماز ہی ہے،جس نے نماز ترک کی بلاشبہ اس نےکفر کیا۔"

کتاب وسنت میں مذکورہ دلائل کے علاوہ بھی دوسری دلیلیں موجود ہیں۔واللہ المستعان(ابن باز  رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔صحیح مسلم  رقم الحدیث(82)

[2] ۔صحیح سنن الترمذی رقم الحدیث(2621)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 503

محدث فتویٰ

تبصرے