سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(546) عورت کا اپنے بے نماز خاوند سے طلاق طلب کرنے کا حکم

  • 19394
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 613

سوال

(546) عورت کا اپنے بے نماز خاوند سے طلاق طلب کرنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا خاوند تارک صلاۃ ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ نماز کا تارک کافر ہوتا ہے مگر میں اپنے خاوند سے بہت زیادہ محبت رکھتی ہوں اور میرے ہاں اس سے اولاد بھی ہے ہم خوشگوار زندگی بسر کررہے ہیں اور اکثر میں اس کو نماز پڑھنے کا کہتی ہوں تو وہ کہتا ہے میرا رب مجھ کو ہدایت دے گا آپ کی نگاہ میں ایسے شخص کے ساتھ تعلق رکھنے میں شریعت کا کیا حکم ہے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے خیال کے مطابق ایسے خاوند کے ساتھ زندگی گزارنا جوتا رک صلاۃ ہے اور جس کے متعلق اس کی بیوی یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ وہ کافر ہے جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا جاءَكُمُ المُؤمِنـٰتُ مُهـٰجِر‌ٰتٍ فَامتَحِنوهُنَّ اللَّهُ أَعلَمُ بِإيمـٰنِهِنَّ فَإِن عَلِمتُموهُنَّ مُؤمِنـٰتٍ فَلا تَرجِعوهُنَّ إِلَى الكُفّارِ لا هُنَّ حِلٌّ لَهُم وَلا هُم يَحِلّونَ لَهُنَّ...﴿١٠﴾...سورة الممتحنة

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تمھارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کی جانچ پڑتال کرو، اللہ ان کے ایمان کو زیادہ جاننے والا ہے پھر اگر  تم جان لوکہ وہ مومن ہیں تو انھیں کفار کی طرف واپس نہ کرو، نہ یہ عورتیں ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ (کافر) ان کے لیے حلال ہوں گے۔

پس اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے وجاحت فرمادی ہے کہ بلا شبہ مومن عورتیں کافر مردوں پر حرام ہیں جیسا کہ کافر مردان عورتوں پر حرام ہیں سو اس بنا پر عورت پر واجب ہےکہ وہ ایسے خاوند سے فی الفور علیحدگی اختیار کرے اور اس کے ساتھ زندگی نہ گزارے اور نہ اس کے ساتھ ایک بستر پر یا اس کے علاوہ جگہوں میں اکھٹی ہو کیونیکہ وہ اپنے شوہر پر حرام ہے۔

رہی اس کی اپنے خاوند سے محبت اور اس کے ساتھ قابل ستائش زندگی کا گزارنا تو بلاشبہ جب اس کو یہ علم ہو جائے گا کہ وہ مرد اس پر حرام ہے اور جب تک وہ ترک نماز پر مصر رہے گا اس عورت کے لیے وہ اجنبی مرد کی طرح ہوگا تو اس کی یہ حجت ختم ہو جائے گی کیونکہ مومن کے ہاں اللہ کی محبت ہر محبت سے اعلیٰ و بالا ہے اور مومن کے ہاں اللہ کی شریعت ہر ایک چیز سے فوقیت رکھتی ہے۔

رہی اولاد تو جب تک وہ مرد اس حالت میں ہے اس کی ان بچوں پر کوئی ولایت نہیں ہے اس لیے کہ بچوں پر ولایت کی شرط ہے کہ والی مسلم ہو جبکہ وہ شخص تو مسلمان نہیں ہے لیکن میں اس آدمی کو نصیحت کرنے میں اپنی آوازاس سائلہ کی آواز کے ساتھ ملاتا ہوں کہ وہ اپنی بھلائی اور دین داری کی طرف پلٹ آئے اور اپنے کفر اور ارتدادسے باز آجائے اور کثرت سے نیک اعمال بجالاتا ہوا مکمل طور پر نماز کو قائم کرنے والا بن جائے اگر وہ اپنی نیت اور ارادے میں اللہ کو سچا بنا کر دکھائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے نماز ی بننے کا یہ کام آسان کردے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿فَأَمّا مَن أَعطىٰ وَاتَّقىٰ ﴿٥ وَصَدَّقَ بِالحُسنىٰ ﴿٦ فَسَنُيَسِّرُهُ لِليُسرىٰ ﴿٧﴾... سورةالليل

"پس لیکن وہ جس نے دیا اور (نافرمانی سے) بچا اور اس نے سب سے اچھی بات کو سچ مانا تو یقیناً ہم اسے آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔"

میں اس شخص کی طرف اپنی نصیحت کا رخ موڑتا ہوں کہ وہ اللہ سے توبہ کرے تاکہ اس کی بیوی اس کی زوجیت میں اور اس کی اولاد اس کی ولایت میں رہ سکے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو نہ اس کی بیوی رہے گی اور نہ اپنی اولاد پر اس کو ولایت حاصل رہے گی۔

(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ  )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 492

محدث فتویٰ

تبصرے