سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(542) تارکِ نماز اور زبان دراز بیوی

  • 19390
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1671

سوال

(542) تارکِ نماز اور زبان دراز بیوی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری بیوی بظاہر دین کی پابند ہے لیکن وہ میرے ساتھ زبان درازی کرتی ہے اور بعض اوقات نماز میں بھی سستی کرتی ہے پس جب میں اس پر سختی کرتا ہوں تو وہ اکڑ جاتی ہے۔ سو بتائیے کہ میں اس طرح کی عورت سے کیا سلوک کروں؟ واضح ہو کہ اس سے میری اولاد بھی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہاں تک نماز کا تعلق ہے تو تمھارے لیے اپنی بیوی کو اس سستی کرنے کی اجازت  دینا بالکل جائز نہیں ہے اور اگر وہ ترک نماز کی اس سستی پر اصرار کرتی ہے تو اس سے جدائی اختیار کرلو چاہے تیری اولاد کی ایک جماعت اس کے بطن سے پیدا ہوئی ہو۔

رہی اس کی زبان درازی العیاذ باللہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین    میں سے ایک صحابی نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس آکر اپنی بیوی کے متعلق اسی قسم کی شکایت کی تھی جیسا کہ احمد اور ابو داؤد نے صحیح سند کے ساتھ لقیط بن صبرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بیان کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   !میری ایک بیوی ہے پھر اس کی کچھ زبان درازی کا ذکر کیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے کہا کہ "طلقها" "اس کو طلاق دے دو"لقیط رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے کہا:میری اس سے محبت اور اولاد ہے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"مرها أو قل لها فإن يكن فيها خير فستفعل ولا تضرب ظعينتك ضربك أميتك" [1]

"اس کو (اصلاح ) کا حکم دے یا اس کو (خیر بھلائی کی بات) کہہ اگر اس میں خیر ہو گی تو وہ تیری بات مانے گی اور اپنی بیوی کو اپنی لونڈی کو مارنے کی طرح نہ مار۔"

امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ   نے کہا: بلا شبہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی کے لیے اپنی زبان دراز بیوی کو طلاق دینا مستحسن ہے لیکن اس کو کچھ مصلحتوں کی بنا پر اپنی زوجیت میں رکھنا بھی جائز ہے کیونکہ لقیط رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے جب اپنے اور بیوی کے درمیان حسن سلوک اور اولاد کاعذر پیش کیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس کو پاس رکھنے کی اجازت دے دی اور فرمایا:

"مرها أو قل لها فإن يكن فيها خير فستفعل "

لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اس کو اپنے پاس روک کر مارے کیونکہ پس آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"ولا تضرب ظعينتك ضربك أميتك"

یعنی اس کو غلام کی طرح نہ مار، اور اس کو اس صورت میں اپنے پاس رکھ کہ تو اس سے حسن معاشرت کرے اگر تو اسے مارنا  چاہتا ہے تو اس کو شرعی سزا دے جو کہ کتاب اللہ میں مذکور ہے۔

﴿ وَالّـٰتى تَخافونَ نُشوزَهُنَّ فَعِظوهُنَّ وَاهجُروهُنَّ فِى المَضاجِعِ وَاضرِبوهُنَّ ...﴿٣٤﴾... سورةالنساء

"اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو۔ سو انھیں نصیحت کرو اور بستروں میں ان سے الگ ہو جاؤ اور انھیں مارو۔"

لیکن نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

" فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غير مُبَرِّحٍ" [2]

"اور ان کو ایسا مارو جو ان کی ہڈی کو ننگا نہ کرے۔"

یعنی اس کو مارنے کا مقصد ادب سکھانا ہو نہ کہ انتقام لینا۔(محمد بن عبد المقصود)


[1] ۔ صحیح سنن ابی داؤد رقم الحدیث(142)

[2] ۔صحیح سنن ابی داؤد رقم الحدیث(1218)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 488

محدث فتویٰ

تبصرے