سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(533) میں نے بیوی کو طلاق دینے کا اپنے ایک رشتہ دار کے ذریعے وکالت نامہ تیار کیا،پھر اس میں تردد کی وجہ سے رک گیا۔کیا اس طرح میری بیوی کو طلاق واقع ہوجائے گی؟

  • 19381
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 752

سوال

(533) میں نے بیوی کو طلاق دینے کا اپنے ایک رشتہ دار کے ذریعے وکالت نامہ تیار کیا،پھر اس میں تردد کی وجہ سے رک گیا۔کیا اس طرح میری بیوی کو طلاق واقع ہوجائے گی؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنے ملک سے عراق کاسفر کیا جب کہ میرے اور میری بیوی کے درمیان غلط فہمی اور غصہ تھا جس کے نتیجہ میں وہ گھر چھوڑ کر میکے چلی گئی اور میں عراق چلاگیا۔عراق میں دوران قیام میری نیت تھی کہ میں اس کو طلاق دے دوں گا،اور عملاً میں نے اپنے قریبی  رشتے دار کے نام عورت کو طلاق دینے کا وکالت نامہ تیار کیا لیکن غوروفکر اور وکالت نامہ بھیجنے میں پیدا ہونے والے  تردد اور جدائی پر دو سال گزرنے کے بعد۔کیا میری بیوی واپسی پر مطلقہ ہوجائے گی؟کیونکہ میری نیت اس کو طلاق دینے کی تھی۔دوسری بات یہ کہ جب میں مصر لوٹوں گا اور اس سے رجوع کرنا چاہوں گا تو کیا پہلے طلاق دوں اور پھر اس سے رجوع کرلوں؟یا یہ کہ میری نیت نافذ نہیں ہوگی کیونکہ جب میں نے اس کو طلاق دینے کی نیت کی تھی تب میں غصے میں تھا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان کو چاہیے کہ وہ جو کام بھی کرنا چاہے اس میں عقل وشعور سے کام لے،خاص طور پر بیوی کو طلاق دینے والے سنگین معاملے میں، اور تب تک کسی کام پر اقدام نہ کرے جب تک وہ اس کے نتائج اور تصرف کو استعمال کرنے کے بعد حاصل ہونے والے نتائج پر نظر وفکر نہ کرلے۔

اور سائل نے ذکر کیا کہ یقیناً اس نے عزم کرلیا تھا کہ وہ کسی کو اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے وکیل بنائے مگر اس طرح کا عزم اور نیت اگرچہ وہ پختہ ہی کیوں نہ ہو اس سے طلاق نہیں ہوتی ہے۔کیونکہ طلاق خاوند یا اس کے وکیل کے طلاق بولنے سے واقع ہوتی ہے،اور سائل کے سوال کے مطابق نہ اس نے طلاق کالفظ بولا اور نہ ہی اس شخص نے بولا جس کو وہ طلاق کا وکیل بنانا چاہتا تھا۔

اس بنا پر بیوی اس کی زوجیت میں باقی ہے۔ اور اس کو مصر آنے کے بعد طلاق دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ طلاق کا سبب غلط فہمی اور غصہ تھا اور اب وہ جاتا رہاہے،لہذا اب اس کو طلاق دینے کی ضرورت  نہیں،وہ بدستور اس کی زوجیت میں ہے۔اسی طرح ہر وہ شخص جو اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ تو کرے مگر نہ طلاق کا لفظ بولے اور نہ لکھے تو بیوی مطلقہ نہیں ہوگی۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین  رحمۃ اللہ علیہ  )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 480

محدث فتویٰ

تبصرے