السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا حدیث ابغض الحلال الى الله الطلاق صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث ضعیف ہے اور ابغض الحلال الى الله الطلاق [1]کو معنی کے اعتبار سے بھی ہم صحیح نہیں کہہ سکتے کیونکہ جو چیز اللہ کے ہاں مبغوض ہو اس کا حلال ہونا ممکن نہیں ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ یہ پسند نہیں فرماتے کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے لہٰذا طلاق میں اصل کراہت اور ناپسندیدگی ہے اور اس کی دلیل کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ طلاق کو پسند نہیں کرتے اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان ہے جو ان لوگوں کے متعلق ہے جو اپنی بیویوں سے ایلا کر لیتے ہیں۔
﴿لِلَّذينَ يُؤلونَ مِن نِسائِهِم تَرَبُّصُ أَربَعَةِ أَشهُرٍ فَإِن فاءو فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿٢٢٦﴾ وَإِن عَزَمُوا الطَّلـٰقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَميعٌ عَليمٌ ﴿٢٢٧﴾... سورةالبقرة
"اور ان لوگوں کے لیے جو اپنی عورتوں سے قسم کھالیتے ہیں چار مہینے انتظار کرنا ہے پھر اگر وہ رجوع کر لیں تو بے شک اللہ بے حد بخشنے والا نہایت رحم والاہے اور اگر طلاق کا پختہ ارادہ کر لیں تو بے شک اللہ سب کچھ سننے والا سب جاننے والا ہے۔"
ان کے رجوع کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ "کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے گا اور ان کو معاف کردے گا۔"
اور ان کے عزم طلاق پر یہ ارشاد فرمانا:
فَإِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے طلاق کا عزم کرنا پسند نہیں فرماتا ۔
اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ طلاق میں کیا قباحتیں ہیں یعنی اس سے عورت کا دل ٹوٹتا ہے اور اگر بچے ہوں تو خاندان بکھر جا تا ہے (اور جو چیز طلاق کی طرف لے جاتی ہے) اس سے نکاح (پر مرتب ہونے والی) مصلحتیں فوت ہو جاتی ہیں لہٰذا اس بنا پر طلاق اصلاً مکروہ ہوگی۔ (فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔ضعیف سنن ابی داؤد رقم الحدیث (2178)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب