سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(507) کیا زیادہ شادیاں کرنا اس شخص کے لیے مشروع ہے جس کی کفالت میں یتیم لڑکیاں ہوں؟

  • 19355
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 867

سوال

(507) کیا زیادہ شادیاں کرنا اس شخص کے لیے مشروع ہے جس کی کفالت میں یتیم لڑکیاں ہوں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ کہتے ہیں ایک سے زیادہ شادیاں کرنا صرف اس شخص کے لیے جائز ہے جس کی ولایت میں یتیم ہوں اور وہ ان سے انصاف نہ کرنے سے ڈرتا ہوتو وہ ان یتیموں کی ماں یا اس کی یتیم بچیوں میں سے کسی ایک سے شادی کرلے۔وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو دلیل بناتے ہیں۔

﴿وَإِن خِفتُم أَلّا تُقسِطوا فِى اليَتـٰمىٰ فَانكِحوا ما طابَ لَكُم مِنَ النِّساءِ مَثنىٰ وَثُلـٰثَ وَرُبـٰعَ ...﴿٣﴾... سورةالنساء

"اور اگر تم ڈرو کہ یتیموں کے حق میں انصاف نہیں کروگے تو (اور) عورتوں میں سے جو تمھیں پسندہوں ان سے نکاح کرلو دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے۔"

ہم جناب سے اس مسئلے میں حق بات کے بیان کی توقع رکھتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ باطل قول ہے جبکہ آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ جب تم میں سے کسی شخص کی ولایت میں یتیم بچی پرورش پا رہی ہو اور وہ اس سے نکاح کرتے ہوئے ڈرے کہ وہ اس کو مہر مثل ادا نہیں کرے گا تو وہ اس کو چھوڑکر کسی اور عورت کے ساتھ شادی کے لیے رجوع کرے اس کے علاوہ بہت سی عورتیں نکاح کے لیے موجود ہیں اللہ نے بندے پر کوئی تنگی نہیں کی ہے۔

آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ دو یا تین یا چار شادیاں کرنا مشروع ہے کیونکہ تعداد ازواج نگاہ پست رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے میں کمال درجہ رکھتا ہے اور اس لیے بھی کہ اس سے نسل بڑھتی ہے اور یہ عورتوں کی عفت و پاکدامنی کا سبب بنتا ہے اور عورتوں سے حسن سلوک کرنے اور ان سے مالی تعاون کا ذریعہ بنتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بلا شبہ یہ عورت جس کو نصف مرد یا ثلث مرد یا ربع مرد میسر آئے وہ اس سے بہتر ہے کہ اس کو سرے سے خاوند ہی نہ ملے۔

لیکن تعداد ازواج میں عدل وانصاف اور ان کے اخراجات کی طاقت رکھنا شرط ہے جو شخص یہ خطرہ محسوس کرتا ہے کہ وہ عدل نہ کر سکے گا تو وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے البتہ وہ قیدی عورتوں میں سے لونڈیوں رکھ سکتا ہے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کا عمل اس کی دلیل ہے جو اس کی تائید کرتا ہے کیونکہ جب نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   فوت ہوئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی نو بیویاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثيرًا ﴿٢١﴾... سورةالاحزاب

"بلا شبہ یقیناً تمھارے لیے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے۔"

اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے امت کے لیے وضاحت فرمادی کہ امت میں سے کسی کوچار سے زیادہ شادیاں کرنا جائز نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کا اسوہ چار یا اس سے کم بیویاں ہیں چار سے زیادہ بیویاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی خصوصیات میں سے ہے(ابن باز رحمۃ اللہ علیہ  )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 448

محدث فتویٰ

تبصرے