سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(497) مستحاضہ سے نکاحِ فسخ کا حکم

  • 19345
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 868

سوال

(497) مستحاضہ سے نکاحِ فسخ کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے کسی کنواری سے شادی کی تو اس کو ایسی مستحاضہ پایا جس کا خون باپ کے گھر سے آنے سے لے کر منقطع نہیں ہوا اس لڑکی کے گھروالوں نے اس کو دھوکا دیا کیا مرد کے لیے نکاح فسخ   کرنے کا حکم ہے؟اور جس نے اس کو دھوکا دیا ہے اس سے وہ حق مہر وصول کرسکتا ہے؟کیا اس لڑکی کے ماں باپ جب انکار کریں تو ان سے قسم لینا واجب ہے؟اور کیا اس کے لیے اس مستحاضہ سے وطی کرنا جائز ہو گا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ ایک ایسا عیب ہے کہ جس کے ساتھ امام احمد وغیرہ کے مذہب میں دو صورتوں میں سے زیادہ ظاہر صورت کے مطابق فسخ نکاح ثابت ہو جا تا ہے اور وہ دو صورتیں درج ذیل ہیں۔

پہلی صورت:بے شک اس کے ہوتے ہوئے وطی ممکن نہ ہو مگر نقصان کے ساتھ جس کا اسے خوف ہو، اور تکلیف کے ساتھ جو اس کو حاصل نہ ہوتی ہو۔

دوسری صورت:یہ ہے کہ بلا شبہ مستحاضہ سے وطی کرنا امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   کے مشہور مذہب کے مطابق جائز نہیں ہے الایہ کہ کوئی ضرورت ہو۔ اور جو عجیب محسوس طریقے سے وطی سے روک دیتا ہے مثلاً فرج کا بند ہو جانا یا طبعاً روک دیتا ہے مثلاً جنون اور کوڑھ وہ عیب امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  ، شافعی،اور احمد رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک فسخ  نکاح کو ثابت کر دیتا ہے جیسا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے مروی ہے۔ اور جونسا عیب وطی مکمل ہونے سے روک دے مثلاً فرج میں نجاست کا ہونا تو اس میں اختلاف مشہور ہے اور مستحاضہ کی نجاست دوسری نجاستوں سے زیادہ غلیظ ہے۔

جب مرد دخول سے پہلے نکاح فسخ کردے تو اس کے ذمہ حق مہر دینا نہیں ہے اور اگر دخول کے بعد نکاح فسخ کرے تو کہا گیا ہے بلا شبہ اس قسم خلوت اختیار کرنے سے حق مہر ثابت ہو جا تا ہے اور اگر اس نے عورت سے وطی کر لی ہے تو وہ اس سے حق مہر لے گا جس نے اسے دھوکا دیا ہے اور یہ بھی کہا گیا حق مہر ثابت نہیں ہو گا، لہٰذا مرد کے ذمے کچھ واجب نہیں ہے۔

اور مرد پر لازم ہے کہ وہ اس سے قسم لے جس کے خلاف اس نے دھوکا دہی کا دعویٰ کیا ہے وہ قسم دے کہ اس نے اس کو دھوکا نہیں دیا ۔اور مستحاضہ عورت سے وطی کرنے میں اختلاف مشہور ہے کہا گیا ہے کہ اس سے وطی کرنا جائز ہے یہ قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ   وغیرہ کا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے۔بلا ضرورت جائز نہیں ہے اور یہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کا مشہور مذہب ہے اور مرد کو جب تک اس سے ایسا قول یا فعل صادر نہ ہو جو اس کی رضا پر دلالت کرے تو اس کو اختیار ہوگا اور اگروہ اس عورت سے وطی کرلے تو اس کو اختیار نہیں ہوگا الایہ کہ وہ لاعلمی کا دعویٰ کرے تو کیا اس کو اختیار ہوگا؟اس میں اختلاف مشہور ہے اور زیادہ واضح بات یہی ہے کہ فسخ نکاح ثابت ہو جائے گا واللہ اعلم(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 442

محدث فتویٰ

تبصرے