سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(495) عورت کا مرد پر شرط لگانا کہ وہ اس کو تدریس سے نہیں روکے گا

  • 19343
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 618

سوال

(495) عورت کا مرد پر شرط لگانا کہ وہ اس کو تدریس سے نہیں روکے گا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب بیوی خاوند پر شرط لگائے کہ وہ اس کو تدریس سے منع نہیں کرے گا اور خاوند اس شرط کو قبول کرلے۔ خاوند کے اس شرط کو قبول کرلینے کے بعد عورت نے اس کے ساتھ شادی کرنا قبول کر لیا۔ کیونکہ مرد نے اس کی لگائی ہوئی شرط سے موافقت کی تھی کیا مرد پر بیوی اور اس کے بچوں کا خرچ لازم ہوگا؟ جبکہ وہ تنخواہ دار ملازمہ ہے کیا مرد کے لیے اس کی تنخواہ سے بغیر اس کی رضا کے کچھ لینا جائز ہے؟اور جب عورت دیندار ہواور وہ گانے اور موسیقی نہیں سننا چاہتی اور اس کے گھر والے اس کو گانے سنانے پر مصر ہیں تو کیا اس حالت میں بیوی کا اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنا درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب عورت نے نکاح کا پیغام دینے والے پر یہ شرط عائد کی کہ وہ اس کو تدریس سے نہیں روکے گا یا پڑھائی سے نہیں روکےگا۔مرد نے یہ شرط قبول کر لی اور اس شرط پر اس سے شادی کرلی تو یہ شرط صحیح ہے تو اب مرد کے لیے اس سے دخول کرنے کے بعد تدریس وغیرہ سے روکنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے۔

"إن أحق الشروط أن توفوا به ما استحللتم به الفروج"[1]

"بلا شبہ شروط میں سے پوری کی جانے کے لائق وہ شرط ہے جس کے ساتھ تم شرمگاہوں کو حلال کرتے ہو۔"

اس روایت کی صحت پر بخاری و مسلم کا اتفاق ہے پس اب اگر مرد اس کو تدریس وغیرہ سے روکے گا تو عورت کو اختیار ہوگا ۔اگر چاہے تو اس مرد کے پاس رہے اور اگر چاہے تو شرعی قاضی سے فسخ نکاح کا مطالبہ کرے۔

رہا خاوند اور اس کے گھر والوں کا گانا اور موسیقی سننا تو یہ نکاح فسخ نہیں کرتا ۔عورت پر لازم ہے کہ وہ ان کو وعظ ونصیحت کرےاور ان کو گانے اور موسیقی کی حرمت سے خبردار کرے اور خود ان کے ساتھ اس گناہ میں شریک نہ ہو کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"الدين النصيحة"[2] "دین سراپا خیر خواہی ہے۔"

اس حدیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ   نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے نیز آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے۔

"مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ "[3]

"تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روکے اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے روکے اور اگر وہ اس کی بھی طاقت نہ رکھے تو دل سے(ہی برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے(جس کے بعد ایمان باقی نہیں رہتا۔)"

اس موضوع پر آیات واحادیث کثرت سے پائی جاتی ہیں خاوند کے ذمہ ہے کہ وہ اس تنخواہ کو اپنی بیوی اور اس کے بچوں پر خرچ کرے اور اس کی اجازت اور رضاکے بغیراس کی تنخواہ سے کچھ لینا جائز نہیں ہے اور بیوی کے لیے خاوند کے گھر سے اپنے میکے یا ان کے علاوہ کسی کے پاس خاوند کی اجازت کے بغیر جانا جائز نہیں ہے،(ابن باز رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (2572)صحیح مسلم رقم الحدیث (1418)

[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(55)

[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(49)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 440

محدث فتویٰ

تبصرے