سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(487) کیا معاہدے سے حرمت ثابت ہوتی ہے؟

  • 19335
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 1022

سوال

(487) کیا معاہدے سے حرمت ثابت ہوتی ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک آدمی ہوں جس کی عمر اڑتالیس برس ہو چکی ہے میں ایک بیماری میں مبتلا ہو گیا اور میرے پاس میرے گھر والوں میں سے کوئی بھی نہیں تھا میرا ایک کام شریک ساتھی اور مسلمان دوست تھا مجھے اس حالت میں مدداور نگہداشت کی ضرورت تھی پس اس دوست نے میری مدد کی اور مجھے اپنے گھر لے گیا اس کی بیوی ایک باشرع مسلمان خاتون اور قرآن کو پڑھنے والی تھی وہ میری بیماری کے دوران میری خدمت کرتی رہی جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے صحت و عافیت عطا کردی تو میں نے یہ چاہا کہ اس کو اپنی بہن بنالوں ،درآں حالیکہ میری مطلق طور پر بہنیں نہیں ہیں ہم نے اپنے سامنے قرآن رکھا اور اس پر عہد کیا کہ یہ خاتون میری بہن اور تمام حالات میں میری محرمہ ہے یہ عہد اس کے شوہر بیٹوں اور بیٹیوں کی رضا مندی سے ہوا اس میں میرے خاندان کی رضا بھی شامل تھی۔اب میں میں اس کو اپنی واقعی حقیقی بہن سمجھتا ہوں۔ کیا میں اس کے ہاتھ کو چھوسکتا ہوں؟کیا میں حج میں اس کا محرم بن سکتا ہوں جبکہ میرے خاندان کے اکثر لوگ اس بھائی چارے کے معاملے کو جانتے ہیں میں اپنے سوال کا جواب چاہتا ہوں کہ اس میں شریعت اسلامیہ کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تیرے دوست نے تجھ سے جتنا بھی حسن سلوک کیا اور اس کی بیوی نے تمھاری جتنی بھی خدمت کی پس اس کی بیوی اس عمل کے ساتھ تیرے لیے محرم نہیں بنے گی وہ تیرے لیے اجنبی ہے انسان کسی دوسرے کا محرم تو صرف نسبی قرابت داری کے ذریعے یا رضاعت کے سبب یا مصاہرت (سسرالی رشتہ داری) کی وجہ سے ان حدودمیں رہتے ہوئے بنتا ہے جو شرعی نصوص میں بیان کی گئی ہیں لہٰذا تمھارے لیے اس عورت کو اپنے ہاتھ یا اپنے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کے ساتھ چھونا جائز نہیں ہے اور نہ ہی تمھارے لیے سفر حج وغیرہ میں اس کا محرم بننا  جائز ہے۔

تمھارے لیے حرام ہے کہ تم اس سے خلوت اختیار کرو اگر چہ وہ عورت اس کا خاوند اور اس کے بیٹے اور بیٹیاں راضی ہی کیوں نہ ہوں۔ تیرا اس کے ساتھ تعلق کسی بھی اجنبی عورت کے ساتھ تعلق کی طرح ہے اس عورت اس کے خاوند اور اس کے اقارب کا تم پر یہ حق ہے کہ تم ان کا شکریہ ادا کرو اور انھوں نے جو تمھاری خدمت کی ہے اس پر ان کو کسی کام میں بدنی تعاون مال خرچ کرنے حسن سلوک کرنے خیر خواہی راہنمائی اور اس طرح کے دیگر اعمال کے ذریعہ بدلہ دو جو تم اچھے انداز میں کر سکو اور اس کی قدرت رکھو اور ان کو اس کی ضرورت ہو۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 435

محدث فتویٰ

تبصرے