السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسی مسئلے کی مناسبت سے اگر کوئی کہے :کیا یہ ممکن ہے کہ رضاعت کے ذریعے ابوّت(باپ کا رشتہ) تو ہو مگر اموت(ماں کارشتہ) ثابت نہ ہو یا امومت ثابت ہو اور ابوت ثابت نہ ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ ممکن ہے کہ بچے کا رضاعی باپ ہو اوررضاعی ماں نہ ہو۔یہ ایسے آدمی میں ہے جس کی دو بیویاں ہوں،ان دونوں نے بچے کو تین دفعہ دودھ پلایا ہوتو وہ آدمی اس بچے کا رضاعی بات تو بن جائے گا اور وہ دونوں عورتیں اس کی رضاعی مائیں نہیں ہوں گی۔
ایسے ہی اس بات کا بھی امکان ہے کہ بچے کی رضاعی ماں ہو اور اس کا رضاعی باپ نہ ہو۔اس کی مثال یوں ہے کہ ایک عورت نے بچے کو دو مرتبہ دودھ پلایا اور وہ ایک آدمی کی بیوی ہے پھر وہ اس خاوند سے جداہوگئی اور ایک اور آدمی سے شادی کرلی اور بچے کو تین مرتبہ دودھ پلایا اس میں کہ وہ اب کسی دوسرے شخص کی بیوی ہے تو اس طرح اس نے بچے کو کل پانچ مرتبہ دودھ پلایا،پس وہ اس بچے کی رضاعی ماں بن جائے گی،اور مذکورہ دونوں آدمیوں میں سے کوئی بھی اس کا رضاعی باپ نہیں بنے گا۔
اوررضاعت کے مسائل وہ ہیں جو اکثر لوگوں پر مشکل ہیں حتیٰ کہ طالب علم بھی اس مشکل میں مبتلا ہیں کیونکہ یہ متداخل مسائل ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان مسائل کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ایک حکم سے حل کرکے آسان کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" يَحْرُمُ مِنْ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنْ النَّسَبِ "[1]
"رضاعت سے اتنے ہی رشتے حرام ہوتے ہیں جتنے رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں۔"
یہ حدیث جامع قواعد میں سے ہے۔جب آپ اس حدیث کو لیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ سات رشتے رضاعت سے حرام ہوتے ہیں،جیسا کہ سات رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آیت محارم میں بیان کیا ہے:
﴿حُرِّمَت عَلَيكُم أُمَّهـٰتُكُم وَبَناتُكُم وَأَخَوٰتُكُم وَعَمّـٰتُكُم وَخـٰلـٰتُكُم وَبَناتُ الأَخِ وَبَناتُ الأُختِ ... ﴿٢٣﴾... سورةالنساء
"حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں ،خالائیں،اور بھتیجیاں اور بھانجیاں۔"(محمد بن عبدالمقصود)
[1] ۔صحیح البخاری ر قم الحدیث(2502) صحیح مسلم رقم الحدیث(1447)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب