السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ کےسوال سے یہ واضح ہوا کہ آپ اس عورت کی بیٹی کے متعلق پوچھ رہے ہیں جس عورت سے آپ نے شادی کی پھر اس کو طلاق دے دی بعد اس کے کہ آپ نے صرف اس سے بوس و کنارکیا اس کے علاوہ اس سے اورکچھ نہیں کیا اب آپ کا سوال یہ ہے کہ آپ کے لیے اس عورت کی بیٹی سے شادی کرنا حلال ہے کہ نہیں؟آپ نے اپنے سوال میں آیت کریمہ کی طرف بھی توجہ دلائی:
﴿فَإِن لَم تَكونوا دَخَلتُم بِهِنَّ فَلا جُناحَ عَلَيكُم ...﴿٢٣﴾... سورةالنساء
"پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔"
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلا شبہ وہ آیت جو تم نے اپنے سوال میں ذکر کی وہ یہ ہے۔
﴿فَإِن لَم تَكونوا دَخَلتُم بِهِنَّ فَلا جُناحَ عَلَيكُم ...﴿٢٣﴾... سورةالنساء
"پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔"
آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ بیٹی کی حرمت اس کی ماں سے وطی کرنے کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کیونکہ آیت میں دخول سے یہی مراد ہے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے کہ انھوں نے کہا آیت میں "الدخول"سے مراد جماع ہے۔
انھوں نے کہا: ایسی عورت سے جو اس کے لیے حلال ہے جیسے اس کی بیوی اور مملوکہ لونڈی اگر فرج کے علاوہ مباشرت کی جائے تو اس مباشرت کرنے والے پر اس عورت کی بیٹی (جو اس کے کسی اور خاوند سے ہو)حرام نہیں ہوتی ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر آپ نے اس عورت کو طلاق دینے سے پہلے صرف بوس وکنار کیا ہے تو آپ کے لیے جائز ہے کہ آپ اس کی بیٹیوں میں سے ایک سے شادی کرسکتے ہیں کیونکہ بوسہ لینا اس دخول کے حکم میں نہیں ہے جس سے حرمت ثابت ہوتی ہے(محمد بن ابراہیم )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب