سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(473) بے نماز اور بے پردہ بیوی کو طلاق دینے کے متعلق حکم

  • 19321
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 854

سوال

(473) بے نماز اور بے پردہ بیوی کو طلاق دینے کے متعلق حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب عورت نماز اور شرعی پردے کا التزام نہ کرے کیا اس سے اس کے خاوند کو طلاق دینا واجب  ہو جا تاہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس قول کی بنا پر کہ تارک نماز کافر ہے اس کے خاوند کے لیے اس کو اپنے نکاح میں روکے رکھنا جائز نہیں ہے جبکہ اس نے عورت کو نماز کا حکم دیا اور اس کو نصیحت کی اور اللہ عزوجل کا خوف دلایا ۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو دلیل بناتے ہیں۔

﴿وَأمُر أَهلَكَ بِالصَّلو‌ٰةِ وَاصطَبِر عَلَيها ...﴿١٣٢﴾... سورةطه

"اور اپنے گھروالوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابندرہ۔"

لہٰذا "علیھا"ضمیر مذکور قریب کی طرف لوٹتی ہے اور وہ مذکور قریب نماز ہے یعنی اپنے اہل کو نماز کا حکم دے اور نماز پر صبر کر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿لا تُكَلَّفُ إِلّا نَفسَكَ وَحَرِّضِ المُؤمِنينَ ... ﴿٨٤﴾... سورةالنساء

"تجھے تیری ذات کے سواکسی کی تکلیف نہیں دی جاتی اور ایمان والوں کو رغبت دلا۔"

اور سنت سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ تارک نماز کافر ہے اگرچہ وہ نماز سستی کرتے ہوئے ہی کیوں نہ ترک کرے۔ صحیح مسلم میں جابربن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے واسطے سے مروی ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ" [1]

"آدمی اور شرک و کفر کے درمیان فرق نماز کا چھوڑنا ہے"نیز بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ بلا شبہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

" العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر "[2]

"ہمارے اور ان کے درمیان نماز کا فرق ہے لہٰذا جس نے نماز کو چھوڑا تحقیق اس نے کفر کیا۔"

اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ جس نے انکار کرتے ہوئے نماز کو چھوڑا وہ ہی کافر ہے کیونکہ علماء و محدثین کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز کا انکاری کافر ہے پھر شقیق بن عبد اللہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے اصحاب سے بیان کیا ہے کہ وہ اعمال میں سے نماز کے علاوہ کسی عمل کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے یہ قول مذکور صحیح سند کے ساتھ مروی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس پر اجماع ہے کہ امور شریعت میں سے کسی امر کا انکار کرنے والا کافر ہو جا تا ہے۔کیا یہ صحیح ہے کہ اس کی کوئی اور بھی تقدیر مقرر کی جاسکے جبکہ اس بات پر اتفاق ہے کہ بعض اعمال کے متعلق یہ کہا جا تا ہے کہ ان سے"کفردون"لازم آتا ہےآپ کوابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کا وہ قول کافی ہے جو اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے۔

﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰفِرونَ ﴿٤٤﴾... سورةالمائدة

"اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔

ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے کہا :

"اس آیت میں مذکورکفر سے مراد"کفردون"ہے(محمد بن عبد المقصود )


[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(82)

[2] ۔صحیح سنن الترمذی رقم الحدیث(2621)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 410

محدث فتویٰ

تبصرے