سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(469) شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہونے والے بچے کا حکم

  • 19317
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1309

سوال

(469) شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہونے والے بچے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے کسی بالغہ کنواری لڑکی سے شادی کی اور اس سے دخول کیا تو اس کو واقعتاً کنواری ہی پایا پھر اس لڑکی نے مرد کے دخول کے چھ مہینے کے بعد بچے کو جنم دیا کیا اس بچے کو اس آدمی کے ساتھ منسوب کیا جائے گا ؟کیونکہ خاوند نے قسم اٹھائی کہ یہ بچہ اسی کے نطفے سے ہے اگر ایسا نہ ہوتو اس کی بیوی کو طلاق ہو۔ تو کیا اس کے ساتھ طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟اور بچہ بھی ٹھیک ٹھاک صحیح الخلقت ہے اور کئی سال کا ہو چکا ہے جواب مرحمت فرما کر عنداللہ ماجورہوں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب اس نے خاوند کے دخول کے چھ مہینے کے بعد بچے کو جنم دیا چاہے ایک لحظہ ہی چھ مہینے سے زیادہ ہو تو آئمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ بچہ اس دخول کرنے والے باپ کی طرف ہی منسوب ہوگا اسی طرح کا ایک واقعہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے دور میں پیش آیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین    نے چھ مہینے کا صحیح بچہ ہونے پر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو دلیل بنایا:

﴿وَحَملُهُ وَفِصـٰلُهُ ثَلـٰثونَ شَهرًا...﴿١٥﴾... سورةالاحقاف

"اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے۔"

اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو ساتھ ملایا:

﴿ وَالو‌ٰلِد‌ٰتُ يُرضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ...﴿٢٣٣﴾... سورةالبقرة

"اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔"

جب آیت میں مذکورہ تیس مہینوں کی مدت سے دو سال مدت رضاعت نکالی جائے تو حمل چھ مہینے کا ہوتا ہے پس آیت مذکورہمیں حمل کی کم از کم مدت اور رضاعت کی کامل مدت کو جمع کیا گیا ہے۔

اور اگر وہ اس بچے کو اب اپنی طرف منسوب نہیں کر رہا تو اس کے گزشتہ اقرارکا کیا بنے گا جو اس نے بچے کو اپنے ساتھ منسوب کرنے کے حوالے سے کیا ہے؟بلکہ اگر وہ کسی مجہول النسب بچے کو بھی اپنے ساتھ منسوب کر لے اور کہے کہ بلا شبہ وہ میرا بیٹا ہے تو مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ بچہ اس کی طرف منسوب ہو جائے گا جب اتنی مدت کے حمل کا درست ہونا ممکن ہے اور کسی نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا ہے کہ وہ اس کا بیٹا ہے تو یہ شخص اپنی قسم سے بری ہوگا اور اس پرقسم توڑنا لازم نہیں آتا۔ واللہ اعلم(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 407

محدث فتویٰ

تبصرے