نماز عصر پڑھنے کا انتہائی آخری وقت کب تک ہے اگر کسی مصروفیت کی وجہ سے کبھی دیر ہو جائے تو اذان مغرب سے کتنے منٹ پہلے تک نماز عصر پڑھی جاسکتی ہے۔؟
اذان مغرب کوئی معیار نہیں ہے بلکہ غروب آفتاب کو بنیاد بنا نا چاہیے اور اگر کسی شخص کو یہ امید ہو کہ وہ غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت نماز عصر بھی پا لے گاتو اسے اپنی نماز مکمل کر لینی چاہیے۔ غروب آفتاب کا وقت نمازوں کے اوقات کے کیلنڈر سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اور عصر كا وقت اس وقت تك ہے جب تك سورج زرد نہ ہو "
عصر كا ابتدائى وقت ہم معلوم كر چكے ہيں كہ ظہر كا وقت ختم ہونے ( يعنى ہر چيز كا سايہ اس كے برابر ہونے كے وقت ) سے شروع ہوتا ہے، اور عصر كى انتہاء كے دو وقت ہيں:
يہ عصر كے ابتدائى وقت سے ليكر سورج زرد ہونے تك ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عصر كا وقت جب تك سورج زرد نہ ہو جائے "
يعنى جب تك سورج پيلا نہ ہو جائے، اس كا گھڑى كے حساب سے موسم مختلف ہونے كى بنا پر وقت بھى مختلف ہو گا.
يہ سورج زرد ہونے سے ليكر غروب آفتاب تك ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے سورج غروب ہونے سے قبل عصر كى ايك ركعت پا لى اس نے عصر كى نماز پالى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 579 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 608 ).
ضرورت اور اضطرارى وقت كا كيا معنى ہے ؟
ضرروت كا معنى يہ ہے كہ اگر كوئى شخص ايسے كام ميں مشغول ہو جس كے بغير چارہ كار نہيں مثلا كسى زخم كى مرہم پٹى كر رہا ہو اور وہ سورج زرد ہونے سے قبل مشقت كے بغير نماز ادا نہ كر سكتا ہو تو وہ غروب آفتاب سے قبل نماز ادا كر لے تو اس نے وقت ميں نماز ادا كى ہے؛ اس پر وہ گنہگار نہيں ہو گا؛ كيونكہ يہ ضرورت كا وقت تھا، اور اگر انسان تاخير كرنے پر مجبور ہو تو سورج غروب ہونے سے پہلے نماز ادا كر لے.
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب