السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کے لیے مانع حمل گولیاں استعمال کرنے کا کیا حکم ہے جبکہ اس کا خاوند اس پر راضی نہ ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خاوند کی رضا کے بغیر گولیاں استعمال کرنا حرام ہے کیونکہ بچہ خاوند اور بیوی دونوں کا حق ہے اسی لیے علماء نے کہا ہے آدمی پر اپنی بیوی کی رضا و خوشنودی کے بغیر عزل کرنا حرام ہے عزل کا مطلب ہے عورت کی شرمگاہ سے باہر منی خارج کرنا تاکہ عورت حاملہ نہ ہو لیکن اگردونوں میاں بیوی مانع حمل گولیاں استعمال کرنے پر راضی ہیں تو جائز ہے کیونکہ یہ عزل کی طرح ہی ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کیا کرتے تھے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ہم نزول قرآن کے زمانے میں عزل کرتے تھے یعنی اگر عزل کرنا ممنوع ہوتا تو قرآن اس سے روک دیتا لیکن یہ گولیاں استعمال نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان کا استعمال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس امت سے کثرت سے اولاد کی خواہش کے خلاف ہے۔
اور میں تمھیں کہتا ہوں۔ ان گولیوں کے اصل موجد مسلمانوں کے دشمن یہودی وغیرہ ہیں جو اس امت کا استیصال اور قتل چاہتے ہیں تاکہ یہ امت دوسروں کی دست نگر بنی رہے کیونکہ جتنی تعداد کم ہوگی اتنی پیداوار کم ہوگی اور جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی پیداوار زیادہ ہو گی اور (کم تعداد سے کم پیداوار اور زیادہ تعداد سے زیادہ پیداوار کا) یہ اصول زراعت صنعت ،تجارت اور ہر چیز میں چلتا ہے آج وہ قومیں جن کی تعداد زیادہ ہے اس کی دنیا میں ہیبت ہے اگرچہ وہ صنعت میں ترقی یا فتہ نہیں ہیں کیونکہ تعداد کی کثرت دشمن کے اندر خوف پیدا کرتی ہے۔
لہٰذا ہم مسلمانوں کو اس بات کی طرف دعوت دیتے ہیں کہ وہ زیادہ بچے پیدا کریں مگر یہ کہ کوئی مرض عورت کی صحت کی کمزوری اور بغیر آپریشن ولادت کا نہ ہونا وغیرہ رکاوٹیں ہوں تو پھر ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ ضرورتیں ہیں اور ضرورتوں کے الگ ہی احکام ہوتے ہیں (فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب