السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کم ازکم جو عزل کے متعلق کہا جا تا ہے وہ یہ ہے کہ بلا شبہ وہ مکروہ ہے علماء کی تعبیر کے مطابق کراہت کے ساتھ جواز موجود ہوتا ہے تو تحقیق یہ عزل کرنا جائز ہے۔اور جواز کے ساتھ ساتھ مکروہ ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عزل کے جائز ہونے کی دلیل جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ حدیث ہے جس کو بخاری و مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ۔کہتے ہیں۔
"كنا نعزل والقرآن ينزل "[1]
"ہم نزول قرآن کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے۔"
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ بے شک ہم عزل کرتے رہے اور قرآن مجید میں اس کے متعلق کوئی حکم نہیں اترا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بلا شبہ وہ جائز ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ وہ جائز ہونے کے ساتھ ساتھ مکروہ ہے رہا یہ سوال کہ عزل کی کراہت کا حکم کہاں سے آیا ؟تو یہ حکم ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر غور کرنے سے حاصل ہوا۔
"تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الأُمَمَ يوم القيامة"[2]
"ایسی عورتوں سے شادی کرو جو محبت کرنے والی اور زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہیں۔ کیونکہ میں تمھاری وجہ سے قیامت کے دن دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔"
اور ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں
"تمھاری کثرت کی وجہ سے قیامت کے دن دوسری امتوں پر فخرکروں گا۔
وہ شخص جو اپنی بیوی سے عزل کرتا ہے بلا شبہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رغبت کو نہیں مانتا ہے اس کام کے لیے حکومت نے ایک محکمہ بنادیا ہے جس کو"تحدید النسل "یا "تنظیم النسل"(منصوبہ بندی) کانام دیا ہے بہر حال یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت اور فخر کی رغبت کے خلاف ہے پھر اس کام میں مغرب کی تقلید ہے وہ مغرب جو بچوں کی تربیت سے حاصل ہونے والے اجر و ثواب پر ایمان نہیں رکھتا وہ اجروثواب جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
"إِذَا مَاتَ ابْنُ آدَمَ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلا مِنْ ثَلاثٍ : مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ " .[3]
"جب ابن آدم فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین اعمال کے صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا وہ نیک بچہ جو اس کے حق میں دعا کرتا ہے۔"
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطہ سے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے۔
"ما من مسلمين يموت لهما ثلاثة من الولد إلا لن تمسه النار إلا تحلة القسم" [4]
"کسی بھی دو مسلمان یعنی میاں اور بیوی کے تین بچے فوت ہوجائیں تو ان کو آگ نہیں چھوئے گی سوائے قسم پوری کرنے کے لیے۔"
کیا کفارکو یہ فضیلت حاصل ہے جو ہمیں عطا کی گئی ہے؟خلاصہ کلام یہ کہ بلاشبہ عورت کے لیے ایسی ضرورت کے تحت جس کو مسلمان ماہر طبیب نے بتایا ہوتحدید نسل کرنا جائز ہے ۔(الالبانی رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (4911)صحیح مسلم رقم الحدیث (1440)
[2] ۔صحیح سنن النسائی رقم الحدیث (3227)
[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1631)
[4] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(6280)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب